اسلام آباد: سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد نواز شریف نے احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے پوچھے گئے 128 سوالات میں سے 55 کے جوابات ریکارڈ کرا دیئے۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں جج محمد بشیر نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی، اس دوران سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر پیش ہوئے، جہاں سماعت کے آغاز پر نواز شریف نے اپنا بیان ریکارڈ کرایا۔

خیال رہے کہ عدالت نے کرمنل پروسیجر کوڈ (سی ای آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت یہ فیصلہ کیا تھا کہ ملزمان کو حتمی فیصلہ سنائے جانے سے قبل اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دیا تھا، اس ضمن میں احتساب عدالت کے جج محمد بشیر، نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن محمد صفدر کے بیانات حاصل کرنے کے لیے مذکورہ دفعہ کے تحت سوال نامہ ترتیب دیا تھا۔

احتساب عدالت کی جانب سے 16 مئی کو نواز شریف کے وکیل کو دیئے گئے 128 سوالات پر مشتمل سوال نامے پر آج ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف ساڑھے تین گھنٹے تک روسٹرم پر کھڑے رہے اور بیشتر سوالات کے جواب خود پڑھ کر سنائے، نواز شریف بیان ریکارڈ کراتے ہوئے پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کی جانب سے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) اور اس کے 6 ارکان کے انتخاب پر تحفظات کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف عوامی عہدہ رکھتے ہوئے مالک تھے، تفتیشی افسر

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل مختلف حالات میں ہوئی، سپریم کورٹ کے 28 جولائی 2017 کے حکمنامے کے بعد جے آئی ٹی رپورٹ غیر متعلقہ ہوچکی ہے، اس کیس میں جے آئی ٹی رپورٹ کے کسی والیم کو بطور شواہد عدالتی ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیا نے شریف خاندان کے خلاف خود ساختہ ثبوت بنانے کے لیے اپنے قریبی رشتے دار کا تقرر کیا۔

سابق وزیر اعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی کے ایک اور رکن بلال رسول بھی لاہور کے سابق میئر میاں اظہر کے قریبی رشتے دار تھے جبکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز بھی حدیبیہ پیپر ملز ریفرنس کی تحقیقات کا حصہ تھے۔

نواز شریف نے کہا کہ جے آئی ٹی میں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید کو شامل کرنا نامناسب تھا اور اس کا جے آئی ٹی کی کارروائی پر اثر پڑا جبکہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ سول ملٹری تعلقات میں تناؤ سے دوچار رہی ہے۔

اپنے بیان کے دوران سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات اور ریفرنس دائر کرنے کے دوران آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ملنے والا فری ٹرائل کا حق انہیں نہیں دیا گیا۔

نواز شریف نے عدالت کو بتایا کہ ’میں کبھی بھی لندن پراپرٹی کا حقیقی یا بینفیشل مالک نہیں رہا‘ اور نہ ہی انہوں نے پراپرٹی کی خریداری کے لیے فنڈز فراہم کیے۔

لندن پراپرٹیز کے بارے میں منی ٹریل سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’جے آئی ٹی میں طارق شفیع کی جانب سے جمع کرائے گئے حلف نامے کا میں عینی شاہد نہیں ہوں‘۔

اپنے بیان کے دوران نواز شریف کی جانب سے کہا گیا کہ لندن اپارٹمنٹ سے متعلق ان کے بیٹے حسین نواز کی جانب سے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گئے دستاویزات سے متعلق وہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔

انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کو اس کیس میں نہ تو ملزم نامزد کیا گیا نہ ہی گواہ کے طور پر پیش کیا گیا، گلف اسٹیل کے 25 فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق باہمی تعاون کے معاہدے (ایم ایل اے) کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا۔

گلف اسٹیل سے متعلق جوابات دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میرا اس کے قیام میں کوئی کردار نہیں، مجھے براہ راست علم نہیں کہ گلف اسٹیل کے قیام کے لیے فنڈز کہاں سے آئے، تاہم طارق شریف کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی۔

گلف اسٹیل ملز سے متعلق انہوں نے مزید کہا کہ اس کے قیام میں کبھی شامل نہیں رہا، گلف اسٹیل مل کا قیام، سرمایہ، آپریشن، قرض کا حصول اور شئیر کی فروخت کی سنی سنائی باتیں ہیں، میں ان تمام کا حصہ نہیں رہا۔

نواز شریف نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ 12 اکتبور 1999 کو مجھے حراست میں لیا گیا، حراست میں لیے جانے کے بعد مجھے سعودی عرب بھجوا دیا گیا، میرے علم میں ہے کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر نامزد کیا، یہ بات بھی میرے علم میں ہے کہ میرے مرحوم والد نے حسین نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا شیئر ہولڈر نامزد کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت آخری مراحل میں داخل

عدالت میں جواب دیتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ نیب کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے پاس ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا اختیار نہیں تھا، جس شخص نے جے آئی ٹی کی کاپی حاصل کرنے کے لیے درخواست کی اس پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھے، جس نے جے آئی ٹی کی کاپی حاصل کی اسے شامل تفتیش یا گواہ نہیں بنایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ تفتیشی افسر نے تفتیش نہیں کی کہ جلد 4 سپریم کورٹ میں جمع ہونے کے بعد کس نے کب اور کیسے نئی دستاویزات میں شامل کی، اس بارے میں شواہد نہیں ہیں کہ کیس کا ریکارڈ کب، کیسے اور کس نے اکھٹا کیا۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نے تجزیے کہ بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا، ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے بیان کا مخصوص حصہ جے آئی ٹی رپورٹ کی جلد 2 میں دوبارہ مرتب کیا گیا جبکہ استغاثہ نے غیر مستند شواہد پیش کیے۔

نواز شریف نے عدالت کے سامنے جواب دیا کہ اکھٹے کیے گئے ریکارڈ کا ریکوری میمو بھی نہیں، قانونی شہادت کے مطابق ایک کیس کے شواہد دوسرے کیس میں نہیں پڑھے جاسکتے، میں نے سپریم کورٹ میں کبھی تسلیم نہیں کیا کہ لندن فلیٹس کا حقیقی یا بینیفشل مالک ہوں۔

حدیبیہ پیپرز ملز میں کسی بھی طور پر ملوث نہیں رہا جبکہ زیادہ عرصے باہر رہنے کی وجہ سے حدیبیہ پیپر ملز کے طویل مدتی قرض کا علم نہیں، حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات میرے مرحوم والد دیکھتے تھے۔

بعد ازاں 55 سوالات کے جوابات ریکارڈ کرنے کے بعد عدالت نے مزید کارروائی کے لیے سماعت 22 مئی تک ملتوی کردی، جہاں نواز شریف مزید جواب دیں گے۔

احتساب عدالت کی اب تک کی کارروائی

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب ریفرنسز پر 13 ستمبر کو پہلی مرتبہ سماعت کرتے ہوئے شریف خاندان کو 19 ستمبر کو طلب کر لیا تھا تاہم وہ اس روز وہ پیش نہیں ہوئے جس کے بعد عدالتی کارروائی 26 ستمبر تک کے لیے مؤخر کردی گئی تھی جہاں نواز شریف پہلی مرتبہ عدالت میں پیش ہوئے۔

دوسری جانب احتساب عدالت نے اسی روز حسن نواز، حسین نواز، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے 2 اکتوبر کو پیش ہونے اور 10، 10 لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

خیال رہے کہ 2 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف عدالت میں پیش ہوئے لیکن ان پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی۔

یہ بھی پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: مریم نواز کا واجد ضیاء کے دستاویزات پر اعتراض

تاہم نواز شریف کے صاحبزادوں حسن نواز، حسین نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف عدالت میں پیش نہ ہونے پر ناقابلِ ضمانت وارنٹ جبکہ مریم نواز کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے گئے تھے۔

نواز شریف 5 اکتوبر کو اپنی اہلیہ کی تیمارداری کے لیے لندن روانہ ہوگئے تھے جہاں سے وہ عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب چلے گئے تھے۔

بعد ازاں مریم نواز اپنے شوہر کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر کے ہمراہ 9 اکتوبر کو احتساب عدالت میں پیش ہونے کے لیے اسی روز صبح کے وقت لندن سے اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچی تھیں جہاں پہلے سے موجود نیب حکام نے کیپٹن (ر) صفدر کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا تھا جبکہ مریم نواز کو جانے کی اجازت دے دی تھی۔

کیپٹن (ر) صفدر کو نیب حکام اپنے ساتھ نیب ہیڈ کوارٹرز اسلام آباد لے گئے تھے جہاں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا اور بعدازاں طبی معائنے کے بعد احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

یاد رہے کہ احتساب عدالت نے 19 اکتوبر کو سبکدوش ہونے والے وزیراعظم، ان کی صاحبزادی اور داماد کیپٹن (ر) صفدر پر ایون فیلڈ فلیٹ کے حوالے سے دائر ریفرنس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عدالت نے نواز شریف کو العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے دائر علیحدہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد کی تھی۔

ان تمام کیسز میں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا، اس کے علاوہ حسن اور حسن نواز بھی اپنے والد کے ہمراہ ریفرنسز میں نامزد ملزمان ہیں۔

نواز شریف پر العزیزیہ اسٹیل ملز اور ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ میں فردِ جرم عائد ہونے کے ایک روز بعد (20 اکتوبر) اسلام آباد کی احتساب عدالت نے نیب کی جانب سے دائر فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں بھی فردِ جرم عائد کردی تھی۔

عدالت نے 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف 3 ریفرنسز میں سے 2 ریفرنسز میں عدالت میں پیش نہ ہونے پر قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کر دیئے تھے اور انہیں 3 نومبر کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا تھا۔

بعد ازاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ 3 نومبر کو احتساب عدالت میں پیش ہوئے اور نیب کی جانب سے دائر ریفرنسز کو یکجا کرنے کے حوالے سے درخواست دائر کی جس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا تھا۔

نواز شریف 8 نومبر کو اپنی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے ہمراہ احتساب عدالت پیش ہوئے تھے جہاں احتساب عدالت کی جانب سے سابق وزیرِاعظم کو کٹہرے میں بلا کر باقاعدہ فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔

15 نومبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے انہیں عدالتی کارروائی سے ایک ہفتے کے لیے استثنیٰ دے دیا اور اس دوران ان کی عدم موجودگی میں ان کے نمائندے ظافر خان کو عدالت میں یپش ہونے کی اجازت دے دی تھی۔

22 نومبر کو ہونے والی سماعت کے دوران نواز شریف نے احتساب عدالت سے التجا کی تھی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کو یکجا کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر رکھا ہے اور فیصلہ سامنے آنے نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کی جانب سے عدالت میں حاضری سے مزید استثنیٰ دی جائے، عدالت سے مزید استثنیٰ 5 دسمبر تک کے لیے مانگی گئی تھی۔

6 دسمبر کو ہونے والی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ ملک طیب نے نواز شریف کے مختلف بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات پیش کیں۔

7 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے عائشہ حامد کی جانب سے دائر درخواست مسترد کردی تھی جبکہ نجی بینک کی منیجر نورین شہزاد کی جانب سے پیش کی گئی دستاویزات کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کا حکم دے دیا تھا۔

11 دسمبر کو سماعت کے دوران احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس ریفرنس میں مزید 2 گواہان کو طلب کرلیا تھا۔

19 دسمبر 2017 کو احتساب عدالت میں 3 گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے تھے جبکہ استغاثہ کے دو مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

3 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران طلب کیے گئے دونوں گواہان کے بیانات قلمبند اور ان سے جرح بھی مکمل کی گئی تھی جس کے بعد احتساب عدالت نے 5 مزید گواہان کو طلبی کا سمن جاری کیا تھا۔

9 جنوری 2018 کو سماعت کے دوران مزید طلب کیے گئے 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے تھے۔

16 جنوری 2018 کو احتساب عدالت میں سماعت کے دوران 2 گواہوں کے بیان ریکارڈ کیے گئے تھے، تاہم ایک گواہ آفاق احمد کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔

22 جنوری کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف لندن میں ایون فیلڈز اپارٹمنٹس سے متعلق ریفرنس میں نیب کی جانب سے ملزمان کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کیا تھا۔

نیب کی جانب سے دائر اس ضمنی ریفرنس کی مدد سے مرکزی ریفرنس میں مزید 7 نئے گواہان شامل کئے گئے تھے جن میں سے 2 کا تعلق برطانیہ سے تھا۔

23 جنوری کو ہونے والی سماعت کے دوران دو گواہان کے بیانات قلمبند کرلیے گئے جبکہ مزید دو گواہان کو طلبی کے سمن جاری کردیئے تھے۔

مزید پڑھیں: نیب ریفرنسز: شریف خاندان کے خلاف مزید دو گواہان طلب

30 جنوری 2018 کو نیب کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف دائر 3 مختلف ریفرنسز میں احتساب عدالت نے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس پر نیب کے ضمنی ریفرنس سے متعلق سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) صفدر کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے اسے سماعت کے لیے منظور کر لیا تھا۔

نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے وکلا کی عدم موجودگی کی وجہ سے 6 فروری کو نیب ریفرنسز کی سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 13 فروری کو ہونے والی سماعت معروف قانون دان اور انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر کے انتقال پر سوگ کے باعث ملتوی کردی گئی تھی۔

نواز شریف اور مریم نواز کی جانب سے احتساب عدالت کی کارروائی سے 2 ہفتوں کے لیے استثنیٰ حاصل کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جس پر 15 فروری کو عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے مسترد کردیا تھا۔

بعد ازاں 19 فروری کو ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرنس میں جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء کو ریکارڈ سمیت عدالت طلب کیا تھا، جس کے بعد وہ 22 فروری کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تاہم بیان ریکارڈ نہیں کراسکے تھے۔

8 مارچ کو احتساب عدالت نے جے آئی ٹی کی مکمل رپورٹ کو ریکارڈ کا حصہ نہ بنانے کا فیصلہ کرتے ہوئے واجد ضیاء کو ہدایت کی ہے کہ وہ تمام دستاویزات کو ایک ایک کرکے ریکارڈ کا حصہ بنائیں۔

20 مارچ کو احتساب عدالت میں واجد ضیاء کی جانب سے بیان ریکارڈ کرانے کا سلسلہ جاری رکھا گیا تھا اور انہوں نے نواز شریف کی کیپیٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت کا ریکارڈ پیش کیا تھا جبکہ ان کے بچوں کی آف شور کمپنیوں کی مالیاتی اسٹیٹمنٹ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں