اسلام آباد: سابق وزیرِ خارجہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے نااہلی فیصلے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت میں دبئی میں ملازمت سے متعلق ریکارڈ پیش کردیا گیا۔

سپریم کورٹ کے سماعت جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بینچ نے خواجہ آصف کی اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے آغاز میں خواجہ آصف کے وکیل منیر اے ملک کی جانب سے دلائل شروع کیے گئے تو انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنے موکل کا تحریری جواب عدالت میں جمع کروادیا۔

انہوں نے کہا کہ ’ہائی کورٹ میں کہا گیا کہ میرے موکل نے دبئی کی ملازمت چھپائی، لیکن پہلے معاہدے کے تحت میرے موکل کی 9 ہزار درہم تنخواہ تھی‘۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ نے خواجہ آصف کو نااہل قرار دے دیا

منیر اے ملک نے مزید بتایا کہ 2014 میں خواجہ آصف کی تنخواہ 30 ہزار درہم تھی جبکہ 2017 میں ہونے والے معاہدے کے مطابق یہ تنخواہ 50 ہزار درہم پہنچ چکی تھی۔

جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ یہ اضافہ خواجہ آصف کی اعلیٰ خدمات پر کیا گیا یا پھر حکومتی ذمہ داری پر اضافہ کیا گیا؟

انہوں نے ایک مرتبہ پھر استفسار کیا کہ کیا خواجہ آصف کا پاکستان میں کوئی کاروبار ہے جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف کا پاکستان میں کوئی کاروبار نہیں ہے۔

منیر اے ملک کے جواب پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ تو پھر تو سرکاری عہدے کا فائدہ اٹھایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ آصف نے نااہلی کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا

منیر اے ملک نے موقف اختیار کیا کہ رٹ پٹیشن میں دوبئی بینک اکاؤنٹ چھپانے کا الزام نہیں تھا، بلکہ یہ الزام بعد میں جواب الجواب کے وقت دیا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ غیر ملکی آمدن پر الیکشن ٹریبونل کا فیصلہ حتمی ہو چکا، اس لیے طے شدہ معاملے پر دوبارہ درخواست قانون کے مطابق نہیں دی جا سکتی۔

جسٹس فیصل عرب نے استفسار کیا کہ یہ بتائیں کن حالات میں 62 ون ایف لگایا گیا جس پر منیر اے ملک کا کہنا تھا کہ خواجہ آصف پر کرپشن کا الزام نہیں، اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الزام کاغزات نامزدگی میں غلط بیانی کا ہے۔

بعدِ ازاں سپریم کورٹ میں خواجہ آصف نااہلی کیس کی سماعت 31 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

واضح رہے کہ تحریک انصاف کے رہنما عثمان ڈار کی جانب سے 11 اگست 2017 کو خواجہ آصف کو آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت نااہل قرار دینے کے لیے درخواست دائر کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: خواجہ آصف کی نااہلی فیصلے کے خلاف اپیل، تمام فریقین کو نوٹسز جاری

پی ٹی آئی رہنما کی درخواست میں الزام عائد گیا تھا کہ خواجہ آصف نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی میں ملازمت کے معاہدے اور اس سے حاصل ہونے والی تنخواہ کی تفصیلات 2013 کے انتخابات سے قبل ظاہر نہیں کیں اس لیے وہ قومی اسمبلی کی رکنیت کے مستحق نہیں۔

بعدِ ازاں 26 اپریل 2018 کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا۔

02 مئی کو مسلم لیگ (ن) کے رہنما خواجہ آصف نے اپنی نااہلی سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔

07 مئی کو سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کی جانب سے اسلام آباد ہائی کورٹ کی نااہلی کے فیصلے کو روکنے کی اپیل ابتدائی سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کردیئے تھے۔

19 مئی کو ہونے والی سماعت میں خواجہ آصف کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر حکم امتناع جاری کرنے کے لیے دائر درخواست کو خارج کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں