اسلام آباد کی سیشن عدالت نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کو اینٹی ٹیرر ازم ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت مجرم قرار دے دیا۔

عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ برطرف وزیراعظم کے حمایتی افراد نے عوام کو اس حد تک مشتعل کرنے کی کوشش کی کہ اس کے نتیجے میں کوئی دہشت ناک عمل وقوع پذیر ہوسکتا تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو سیاست سے تاحیات نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنائے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کے کارکنان شاہراہ دستور پر نکل آئے اور عدلیہ مخالف نعرے لگائے جس میں خاص طور پر چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ مخالف ریلی نکالنے پر مسلم لیگ(ن) کے کارکنان پر فردِجرم عائد

مذکورہ مقدمے میں سیشن جج سہیل ناصر نے دہشت گردی کی دفعہ لگاتے ہوئے چوہدری محمد رفیق اور ملک اختر محمود کی ضمانت کی درخواستیں مسترد کردیں۔

خیال رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نااہل قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کردیا تھا، اور اس کے بعد ایک سال سے بھی مختصرعرصے میں 13 اپریل 2018 کو انہیں آئین کی شق نمبر 62(1)(f) کے تحت تاحیات ناہل کردیا گیا۔

اس موقع پر سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے باہر موجود مسلم لیگ (ن) کے کارکنان نااہلی کا فیصلہ سنائے جانے پر مشتعل ہوگئے اور مبینہ طور پر شاہراہ دستور بند کردی۔

مزید پڑھیں: عدلیہ مخالف تقاریر: متفرق درخواستوں پر پیمرا سے جواب طلب

اس حوالے سے سیشن جج کا کہنا تھا کہ مظاہرین نے عدلیہ اور چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو بدنام کرنے کی کوشش کی، رپورٹ کے مطابق ہجوم نے ’چیف جسٹس نامنظور‘ اور ’کالا قانون نا منظور‘ کے نعرے لگائے، اور ساتھ ہی سڑک بھی بند کردی جس سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اس ضمن میں ملزمان کے وکلا نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس مقدمے میں اے ٹی اے کی دفعات کا اطلاق نہیں ہوتا کیوں کہ ان کے موکلوں نے صرف عدالت کے فیصلہ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا ، دونوں میں سے کسی کا بھی مقصد جان بوجھ کے عوام کے لیے مشکلات پیدا کرنا نہیں تھا۔

تاہم عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ مقدمے میں موجود حقائق کے جواز پر اے ٹی اے کی دفعہ 7 کا اطلاق ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: توہین عدالت کی سزاؤں پر ہر صورت عمل درآمد کرانے کا عندیہ

عدالت کا اپنے فیصلے میں مزید کہنا تھا کہ اس بات کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا کہ سیشن کورٹ، دہشت گردی کی عدالت کے اختیارات نہیں رکھتی، اسے ضمانت کی درخواستوں پر فیصلہ سنانے کو حق نہیں ہے۔

عدالت نے حکم دیا کہ ملزمان اعلیٰ عدالت کے خلاف کیے جانے والے اپنے مجرمانہ فعل کی توجیح پیش کریں، جس کے باعث عوام میں بھی افراتفری اور خوف پھیل گیا تھا۔

بعدازاں مقدمے کی کارروائی 29 مئی تک کے لیے ملتوی کردی گئی اور درخواست گزاروں کو متعلقہ عدالت سے رابطے کے احکامات دے دیے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں