اسلام آباد: فیض آباد دھرنے سے متعلق وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق وزیراعظم آفس میں طویل اجلاس کے بعد انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو دھرنا ختم کرانے کے لیے مذاکرات کا مکمل اختیار دیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک پاکستان سمیت دیگر مذہبی جماعتوں کے دھرنے سے متعلق ڈان نیوز کو حاصل ہونے والی وزارت دفاع کی رپورٹ کے مطابق دھرنے کے پیچھے آئی ایس آئی کے ملوث ہونے سے متعلق غلط فہمیاں پیدا کی گئیں، حقیقت میں معاملے کے پرامن حل کے لیے آئی ایس آئی نے حکومت کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سیاسی قیادت اور دھرنا قیادت کے درمیان کئی مذاکرات کے دور کرائے گئے جو ناکام ہوئے، مذاکرات کی ناکامی کی وجہ حکومت کی جانب سے وزیر قانون کے استعفے کے معاملے پر سخت موقف تھا۔

مزید پڑھیں: فیض آباد دھرنا کیس: عدالت کا خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے کا حکم

وزارت دفاع کی رپورٹ میں کہا گیا کہ آپریشن کی ناکامی کے بعد دھرنا قائدین کے انتہائی جذبات کے باوجود آئی ایس آئی نے انہیں مذاکرات کے لیے راضی کیا، ملک بھر سے حمایت ملنے کے بعد دھرنا قائدین پوری حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کررہے تھے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایس آئی کی جانب سے دھرنا قائدین کو اپنے اصل مطالبات تک محدود رہنے پر راضی کیا گیا جبکہ 25 نومبر کے پولیس آپریشن کی تحقیقات سے متعلق دھرنا قائدین کا مطالبہ بھی تسلیم کیا گیا۔

وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ دھرنا قائدین کے عمل اور تقاریر سے متعلق انہیں بلا کر وضاحت لی جاسکتی ہے، الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد سیاسی رہنماؤں کی بیان بازی نے معاملے کو مزید کشیدہ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مظاہرین کے خلاف آپریشن اسلام آباد اور راولپنڈی پولیس کے درمیان موثر کوآرڈینشن نہ ہونے کے باعث ناکام ہوا، دھرنے کو ختم کرانے کے لیے سیاسی پلیٹ فارم کے استعمال کی آئی ایس آئی کی سفارشات کے باوجود دھرنا مظاہرین کے خلاف آپریشن کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد دھرنا: معاہدے کی قانونی توثیق نہیں کی جاسکتی، جسٹس شوکت عزیز

وزارت دفاع نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ مظاہرین کو فیض آباد پل سے ہٹانے کے لیے کمزور پلان بنایا گیا جس پر عملدرآمد بھی ٹھیک طرح سے نہیں کیا گیا، قریبی مدارس سے لوگوں کو فیض آباد کی جانب بڑھنے سے روکا نہیں جاسکا جبکہ آپریشن کے دوران آنسو گیس کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا جس سے سیکیورٹی اہلکار خود متاثر ہوئے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ زیادہ دیر تک ڈیوٹی کی وجہ پولیس اہلکار تھک چکے تھے اور ان کا مورال بھی پست ہوگیا تھا جبکہ دھرنا قائدین کی جانب سے تقریروں کے ذریعے پولیس اہلکاروں کے مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کی گئی۔

اس میں مزید کہا گیا کہ آپریشن کی براہ راست میڈیا کوریج سے دھرنے کی حمایت میں ملک بھر میں لوگ متحرک ہوگئے۔

خیال رہے کہ فیض آباد دھرنے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنے والے پٹیشنر نے عدالت سے متعدد مرتبہ اس کیس میں وزارت دفاع کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کی کاپی انہیں فراہم کرنے کے لیے درخواست کی تھی لیکن اسے ماضی میں مسترد کیا گیا۔

تاہم حال ہی میں پٹیشنر کی جانب سے دوبارہ مذکورہ درخواست کی گئی جس پر عدالت عالیہ نے وزارت دفاع کو نوٹس بھیجا اور وزارت کے جواب جمع کرائے جانے کے بعد مذکورہ رپورٹ کی کاپی پٹیشنر کو فراہم کردی گئی۔

فیض آباد دھرنا

واضح رہے کہ اسلام آباد کے فیض آباد انٹرچینج پر مذہبی جماعت نے ختم نبوت کے حلف نامے میں متنازع ترمیم کے خلاف 5 نومبر 2017 کو دھرنا دیا۔

حکومت نے مذاکرات کے ذریعے دھرنا پرامن طور پر ختم کرانے کی کوششوں میں ناکامی اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے فیض آباد خالی کرانے کے حکم کے بعد دھرنا مظاہرین کے خلاف 25 نومبر کو آپریشن کیا، جس میں سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 100 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: اسلام آباد ہائی کورٹ میں راجا ظفرالحق کمیٹی کی رپورٹ پیش

آپریشن کے خلاف اور مذہبی جماعت کی حمایت میں ملک کے مختلف شہروں میں احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے اور عوام کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، 27 نومبر 2017 کو حکومت نے وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے سمیت اسلام آباد دھرنے کے شرکا کے تمام مطالبات تسلیم کر لیے، جس میں دوران آپریشن گرفتار کیے گئے کارکنوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل تھا۔

بعد ازاں تحریک لبیک یارسول اللہ کے کارکنان کی رہائی کا آغاز ہوگیا اور ڈی جی پنجاب رینجرز میجر جنرل اظہر نوید کو، ایک ویڈیو میں رہا کیے جانے والے مظاہرین میں لفافے میں ایک، ایک ہزار روپے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں