لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔
لکھاری اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے سفیر رہ چکے ہیں۔

ایسے وقت میں جب کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے ساتھ ساتھ ہندوستانی اور پاکستانی توپیں مسلسل گرج رہی ہیں، تو ایسے وقت میں بھی دونوں جانب سے تعلقات میں بہتری کی خواہش کے کئی اشارے نظر آ رہے ہیں۔

سب سے نمایاں طور پر پاکستان کے آرمی چیف نے کئی مواقع پر واضح طور پر ہندوستان کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیا ہے، جسے 'باجوہ ڈاکٹرائن' کا نام دیا گیا ہے۔ حال ہی میں ہندوستانی وزیرِ دفاع نے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے امن کی کوششوں کے جواب میں ہندوستان بھی قدم بڑھائے گا۔

ہندوستانی ملٹری اتاشی کو یومِ پاکستان کی پریڈ میں مدعو کیا گیا تھا اور انہوں نے دعوت قبول کی۔ پاکستان نے ہندوستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کے دیگر ارکان کی علاقائی دہشتگردی پر بحث کے لیے میزبانی کی۔ ستمبر میں پاکستان اور ہندوستان روس میں ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کی مشترکہ انسدادِ دہشتگردی مشقوں میں شرکت کریں گے۔ گزشتہ ماہ پاکستان نے ہندوستان کے ساتھ ٹریک 2 مذاکرات کی میزبانی بھی کی۔

اپنی جانب سے پاکستان نے باقاعدگی سے ہندوستان کے ساتھ جامع مذاکرات کی بحالی کی حمایت کی ہے اور چوں کہ اس وقت پاکستان داخلی طور پر اور مغربی سرحد سے ہونے والی دہشتگردی سے نمٹنے میں مصروف تھا، اس لیے مشرقی سرحد پر امن بحال رکھنا پاکستان کے لیے اسٹریٹجک طور پر قابلِ فہم تھا۔

پڑھیے: ہندوستان اور اسرائیل گٹھ جوڑ: مگر کس کے خلاف؟

بدقسمتی سے حکومت کے آغاز سے ہی بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کے نریندرا مودی نے تعلقات کی بحالی کو پاکستان کی جانب سے کشمیری جدوجہدِ آزادی کی حمایت سے دستبرداری اور ممبئی اور دیگر دہشتگرد حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے سے مشروط کردیا ہے۔ اس نے تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور بلوچ دراندازوں کی سرپرستی کرکے پاکستان کو اندرونی طور پر غیر مستحکم کرنے اور بین الاقوامی طور پر پاکستان کو دہشتگردی کا سرپرست قرار دلوا کر تنہا کرنے کی حکمتِ عملی تیار کی۔

مگر کئی تازہ ترین پیش رفتوں کی وجہ سے ہندوستان شاید اب اپنے رویے میں تبدیلی پر غور کر رہا ہے۔

پہلی وجہ، پاکستان اور دوسری علاقائی طاقتوں روس، چین اور ایران کے درمیان افغانستان کے مسئلے کا حل افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ڈھونڈنے پر اتفاق ہوا ہے۔ ہندوستان اور امریکا کو معاملہ خراب کرنے والوں کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے پاکستان مخالف اور ہتک آمیز بیانات کے باوجود پاکستان اور امریکا کے درمیان ٹکراؤ نہیں ہوا، نہ ہی اسے ریاستی طور پر دہشتگردی کا سرپرست قرار دیا گیا ہے اور نہ ایسا ہونے کی امید ہے جس کی ہندوستان توقع کر رہا تھا۔ دوسری جانب امریکا اب بھی افغانستان میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے اور افغان طالبان کے ساتھ ایک سیاسی تصفیے کے حصول کے لیے پاکستانی تعاون پر منحصر ہے۔

تیسری وجہ، گزشتہ سال کے ڈوکلام تنازعے کے بعد چین نے ہندوستان کو امن کی کئی پیشکشیں کیں، جس میں زیادہ تجارت اور سرمایہ کاری، سی پیک اور اس کے ذریعے مشرقِ وسطیٰ اور اس سے آگے کے ممالک تک رسائی اور ژی جن پنگ اور مودی کے درمیان سربراہی ملاقات شامل ہے۔ افغان پیش رفت، امریکا کا ناقابلِ پیش گوئی رویہ اور چینی لچک، سب کی وجہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان چین اور روس کے ساتھ مثبت تعلقات کے ذریعے امریکا کے ساتھ اپنی اسٹریٹجک شراکت داری کو متوازن کرنا چاہتا ہے۔

چوتھی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان پاکستان کو غیر مستحکم اور تنہا کرنے کی اپنی کوششوں میں ناکام ہوچکا ہے۔

فاٹا اور بلوچستان میں پاکستان کے کئی ملٹری آپریشن اب ہندوستان کی افغان سرزمین سے سرحد پار دہشتگردی روکنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جب پاکستان پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا کام مکمل کرلے گا تو سرحد پار حملے مزید کم ہوجائیں گے۔ اسی طرح ہندوستان کے پاس بھی اب پاکستان کو تنہا کرنے کا موقع نہیں ہے کیوں کہ پاکستان افغانستان میں مذاکراتی سمجھوتے میں اہم کردار ادا کرنے والا ہے اور پاکستان، روس، چین اور ایران کے درمیان افغانستان اور دہشتگردی کے معاملے پر سیاسی ہم آہنگی پیدا ہوگئی ہے۔

مزید پڑھیے: بھارت کا مثبت ہوتا رویہ؛ غلطی کا احساس یا نئی چال؟

حتمی بات یہ کہ ہندوستان گزشتہ 2 سالوں سے جاری کشمیریوں کی مقبولِ عام جدوجہد کو دبانے میں ناکام رہا ہے۔ ہندوستان شاید یہ محسوس کرے کہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کرکے اس بغاوت کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان کے لیے تعلقات کی بحالی کے کسی بھی مرحلے میں سب سے اہم مسئلہ کشمیر رہا ہے اور رہے گا۔ پاکستان کی کوئی بھی حکومت یا کوئی رہنما ہندوستان کے ساتھ تعلقات کی بحالی نہیں کرسکتا جب تک کہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں جابرانہ کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

ماضی سے اگر رہنمائی لی جاسکتی ہے تو ہندوستان کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی بھی مذاکرات کی توجہ صرف دہشتگردی اور کشمیر کے حامی عسکریت پسند گروہوں (لشکرِ طیبہ، جیشِ محمد اور حزب المجاہدین) کے پاکستان سے خاتمے اور ان کے رہنماؤں کی گرفتاری تک ہی رکھے۔ اسلام آباد کو ان گروہوں کے خلاف کارروائی کرنے میں دشواری ہوگی، خاص طور پر حزب المجاہدین کے خلاف کیوں کہ یہ بین الاقوامی طور پر زیرِ پابندی نہیں، جبکہ ہندوستان مقبوضہ کشمیر میں ریاستی جبر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ دہشتگردی کے تناظر میں پاکستان بھی بلاشبہ ہندوستان کی جانب سے ٹی ٹی پی اور بلوچ دراندازوں کی سرپرستی کا مدعا اٹھائے گا۔

سادہ تجزیوں کے برعکس ہندوستان کی پاکستان پر دہشتگردی سے متعلق دباؤ ڈالنے کی صلاحیت لامحدود نہیں ہے۔ پاکستان ہندوستان کی جانب سے ٹی ٹی پی اور بلوچ لبریشن آرمی کی سرپرستی کا کابل پر دباؤ، امریکا سے مذاکرات، سرحد پر باڑ، بلوچ محرومیوں کا ازالہ، فاٹا اصلاحات اور ضرورت پڑنے پر دہشتگرد اڈوں پر براہِ راست ایکشن کرکے مقابلہ کرسکتا ہے۔ پاکستان کو افغانستان سے سرحد پار دہشتگردی روکنے کے لیے ہندوستانی رعایتوں کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اسے ایسا کرنے کے لیے کشمیر پر اپنی پوزیشن پر سمجھوتہ کرنے کی ضرورت ہے۔

مگر ماضی کے نمائشی اقدامات کے برعکس ہوسکتا ہے کہ دنیا بھر میں جاری اسٹریٹجک تبدیلیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہندوستان نے یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ اس کے قومی مفادات میں بہتر یہی ہے کہ وہ امریکا کے ہاتھوں میں کھیلنے کے بجائے شنگھائی تعاون تنظیم جیسے ابھرتے ہوئے یورایشیائی سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون میں اپنا مثبت کردار ادا کرے۔

جانیے: جنگ کے علاوہ 6 کام جو انڈیا اور پاکستان کر سکتے ہیں

دہشتگردی، طاقت کے عدم استعمال اور تنازعات کے پُرامن حل پر دو طرفہ یقین دہانیاں کروائی جاسکتی ہیں۔ سیاچن اور سر کریک جیسے کچھ مسائل فوری طور پر حل کیے جا سکتے ہیں۔ اعتماد سازی کے موجودہ اقدامات کو بڑھایا جاسکتا ہے جس میں افواج اور اسلحے کی تعیناتی اور تنصیب کو محدود کرنا اور اچانک حملوں کے امکان کا خاتمہ شامل ہے۔

جموں اور کشمیر پر ہندوستانی اور پاکستانی مؤقف پر الجھے بغیر ہی ہندوستان کی سی پیک میں شمولیت پر اتفاق ہوسکتا ہے، مگر ہندوستان کو بھی پاکستان کو نیپال اور بنگلہ دیش تک پہنچنے کے لیے ٹرانزٹ حقوق دینے ہوں گے۔

دو طرفہ تجارت میں وسعت دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہوسکتی ہے اگر پاکستان کو سبسیڈائزڈ ہندوستانی برآمدات سے صنعتی نقصان کے خلاف یقین دہانی کروائی جائے۔

دونوں ممالک کے لیے پانی کی کمی ایک سنگین خطرہ ہے۔ انہیں سندھ طاس معاہدے پر عمل کرنا ہوگا تاکہ پانی کے بحران کا مقابلہ کیا جاسکے، جو کہ مستقبل میں ایک اور تنازعے کا سبب بن سکتا ہے۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا پاکستان اور ہندوستان کے اقدامات مذاکرات تک پہنچیں گے اور آیا یہ مستحکم کوششیں ہوں گی۔ پاکستان اور ہندوستان کے تعلقات میں بحالی دوسری شادی جیسی کوشش ہے، جس میں خراب تجربے کے باوجود اچھے کی امید رہتی ہے۔ مگر ہم متبادل، یعنی جنوبی ایشیاء میں مسلسل عدم استحکام اور ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دو ممالک کے درمیان ہر دم جنگ کے خطرے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 27 مئی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں