لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔
لکھاری ’پاکستان: ان بٹوین ایکسٹریم ازم اینڈ پیس‘ کے مصنف ہیں۔

چیف جسٹس پاکستان کی حال ہی میں بنائی گئی پولیس اصلاحات کمیٹی (پی آر سی) پولیس اصلاحات کے لیے ایک اہم سنگِ میل ہے۔ روایتی طور پر اصلاحات حکمران طبقوں اور پولیس کے اعلیٰ حکام کے درمیان باہمی مفاہمت سے طے پاتے تھے جبکہ عوامی رائے کی سب سے کم اہمیت ہوتی تھی۔ 1947ء سے اب تک سفارشات پر مبنی 21 رپورٹیں جاری کی گئی ہیں جن پر بمشکل ہی عمل کیا گیا ہے۔ ملک کی داخلی سلامتی کو لاحق سنگین خطرات کے پیشِ نظر سیاستدانوں کی اس عدم دلچسپی کی وجہ سے پاکستان میں عوام کا تحفظ سمجھوتے کی نذر ہوگیا ہے۔

عوامی مفاد میں ایک تشخیصی حکمتِ عملی اپنا کر اور مکمل طور پر پروفیشنل پولیس افسران کی ایک باڈی تشکیل دے کر اعلیٰ عدلیہ نے پہلی بار ادارے کے اعلیٰ حکام کے اندر اپنے محکمے میں خود اصلاحات لاسکنے کے اعتماد کو جنم دیا ہے۔ اب یہ ان کا فرض ہے کہ وہ ایک رپورٹ تیار کریں تاکہ پولیس کو کس طرح ایک خود مختار عوامی خدمت کار بنایا جا سکے۔

اس سے پہلے پولیس اصلاحات کے لیے پارلیمانی کارروائیاں ترجیح نہیں رہی ہیں۔ انگریز دور کا پولیس ایکٹ 1861ء پولیس آرڈر 2002ء سے تبدیل کر دیا گیا تھا جسے سترہویں اور اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے باقی رکھا گیا۔ بھلے ہی پولیس آرڈر 2002ء نے پولیس کو عارضی طور پر آزادی فراہم کی، مگر اس کی افادیت پرکھے جانے سے قبل ہی اس میں کافی تبدیلیاں کر دی گئیں۔

پڑھیے: پولیس کے حقوق

اٹھارہویں ترمیم کے فوائد پر خوشیاں منائی جا رہی تھیں کہ شخصی مفادات کی وجہ سے پولیس آرڈر 2002ء پر سوال اٹھائے جانے لگے۔ قانونی طور پر پولیس آرڈر 2002ء کو ختم کرنے کا اختیار صوبائی اسمبلیوں کے پاس نہیں ہے، مگر ان کی تشریح کے مطابق چونکہ قانون کا نفاذ اب ایک صوبائی معاملہ ہے، اس لیے پولیسنگ قوانین بھی صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں۔ بلوچستان اور سندھ نے پولیس ایکٹ 1861ء کو ترجیح دی، پنجاب نے پولیس آرڈر 2002ء کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ باقی رکھا جبکہ خیبر پختونخواہ نے 2017ء میں اپنا پولیس لاء نافذ کیا۔

تاریخی طور پر دیکھیں تو قانون کا نفاذ صوبائی معاملہ جبکہ پولیس قوانین وفاقی دائرہ کار میں رہے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان اور ضابطہءِ فوجداری کی پیروی تمام صوبے کرتے ہیں جبکہ صوبائی پولیس کے سینیئر حکام وفاق کے زیرِ انتظام پولیس سروس آف پاکستان سے آتے ہیں۔ چنانچہ صوبائی اتفاقِ رائے سے یا تو پولیس آرڈر 2002ء یا پھر ایک نیا وفاقی قانون اپنایا جانا چاہیے۔

پی آر سی کے شرائطِ کار میں تفتیش کے معیار کو بہتر بنانے پر تجاویز دینا بھی شامل ہے۔ بھلے ہی پولیس آرڈر 2002ء نے انویسٹیگیشن کو آپریشنز سے الگ کردیا ہے، مگر بڑھتی ہوئی سیکیورٹی ضروریات اور تربیت و وسائل کی کمی نے توجہ کا رخ تفتیش (زیادہ عوامی اور نسبتاً آسان کام) سے ہٹا کر آپریشنز کی جانب کردیا ہے جس کی وجہ سے سزاؤں کی شرح میں کمی اور فوجداری نظامِ انصاف پر بڑھتا ہوا عدم اعتماد دیکھنے میں آیا ہے۔

فی الوقت پولیس تربیت کی توجہ تقریباً پوری طرح جسمانی تربیت پر ہوتی ہے جبکہ تفتیش کے جدید ترین طریقہ کار پر توجہ نہیں دی جاتی۔ جہاں کچھ تفتیش کاروں میں ملازمت پر رہتے ہوئے بھی سیکھنے کی جستجو اور لگن ہوتی ہے، وہاں زیادہ تر افراد تفتیشی ونگ کو صرف ایسے عارضی کام کے طور پر دیکھتے ہیں جس سے گزر کر وہ زیادہ فائدہ مند عہدوں پر جاسکتے ہیں۔

اس لیے تفتیش کاروں کو ایک پروفیشنل باڈی کے ذریعے بھرتی کیا جانا چاہیے جو بہترین ٹیلنٹ کو اپنے اپنے ونگز میں مستقل اور ناقابلِ تبادلہ عہدوں پر تعینات کرے۔ انہیں تفتیشی تربیت کے لیے مخصوص ادارے سے خصوصی تربیت دینی چاہیے۔ ضلعی اور اسٹیشن سطح پر کتنے تفتیش کاروں کی ضرورت ہے، اس کا پتہ لگانے کے لیے پی آر سی کو ایک فارمولہ چاہیے ہوگا جو جرائم کی شرح اور آبادی پر مبنی ہو۔ درحقیقت آپریشنز اور انویسٹیگیشن، دونوں کے ہی افسران کو ایک ہی معیار پر پرکھا جاتا ہے مگر تفتیش کاروں کو زیادہ خصوصی معیارات پر پرکھا جانا چاہیے۔ سینیئر افسران کی ترقیوں کو تفتیشی ونگ میں لازمی ڈیوٹی کے ساتھ منسلک کر دینے سے بھی مجموعی معیار اور احساسِ ملکیت میں بہتری آئے گی۔

پڑھیے: کچھ حل

ضلعی سطح پر فوجداری نظامِ انصاف کے مختلف ستونوں کے درمیان ہم آہنگی بہتر بنانے کے لیے پولیس آرڈر 2002ء کی شق 109 سات ارکان پر مشتمل کرمنل جسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی کی تشکیل کی اجازت دیتی ہے۔ بھلے ہی یہ کمیٹی صرف رابطہ کاری کے لیے ہے مگر یہ کبھی کبھی انتظامی کردار بھی اپنا لیتی ہے اس لیے پی آر سی کو چاہیے کہ اس کے فرائض اور کاموں پر نظرِ ثانی کرے۔

پی آر سی کو تفتیش کاروں اور متاثرہ افراد کے درمیان موجود کمزور رابطوں پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ایسے طریقہ کار تشکیل دیے جاسکتے ہیں جن کے مطابق تفتیش کار متاثرہ افراد کو ان کے مقدمات پر پیش رفت کے بارے میں آگاہ کرنے کے پابند ہوں۔ تفتیش کاروں کو تربیت دی جانی چاہیے کہ متاثرہ افراد کا اطمینان ان کی پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔

جہاں حکومت تفتیش کے لیے فنڈز مختص کرتی ہے، وہاں زیادہ تر تفتیش کاروں کو اخراجات کی بھرپائی کے طریقہ کار کے متعلق علم نہیں ہوتا۔ عمومی طور پر معمولی فنڈز کے ساتھ کام کرنے والے تفتیش کار جدید ترین تکنیک نہیں اپنا سکتے۔ چنانچہ مختلف اقسام کے جرائم کے لیے معیاری قیمتوں پر نظرِ ثانی کرکے ان کا اعلان کرنا چاہیے۔

بدعنوانی اور تفتیشی فنڈز کے غلط استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے عوام کو میڈیا کے ذریعے مطلع کرنا چاہیے۔ عوامی آگاہی بدعنوان عناصر کو معصوم لوگوں سے پیسے نکلوانے کی حوصلہ شکنی کرے گی، جس سے متاثرہ افراد پر مالی بوجھ کم کیا جا سکے گا۔ اس طرح کی شفافیت عوام کی نظروں میں پولیس کا تشخص بھی بہتر بنائے گی، اور حتمی بات یہ کہ ایسی اصلاحات جو پولیس تھانوں کا ماحول اور کلچر تبدیل نہ کریں، وہ مطلوبہ فوائد حاصل کرنے میں مدد نہیں دیں گی۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 28 مئی 2018ء کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں