کراچی: قومی احتساب بیورو (نیب) نے سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر بحریہ ٹاؤن کے خلاف اپنی تحقیقات مکمل کرتے ہوئے اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ زمین کی غیرقانونی منتقلی میں ملوث اداروں اور افراد کے خلاف ان کا کیس بہت مضبوط ہے۔

تحقیقات کے حوالے سے نیب نے انکشاف کیا کہ بحریہ ٹاؤن نے متعلقہ حکام کے ساتھ مل کر ہزاروں ایکڑ زمینیں ہڑپ کیں جس کے سبب قومی خزانے کو 90 ارب روپے کا نقصان ہوا۔

تحقیقات سے واقفیت رکھنے والے ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تحقیقاتی ٹیم نے اپنا کام مکمل کرلیا ہے تاہم اس حوالے سے ریفرنس دائر کیے جانے سے قبل اس کا قانونی جائزہ لیا جائے گا جس کے بعد چیئرمین نیب کی زیر صدارت بورڈ اس پر فیصلہ سنائے گا۔

مزید پڑھیں: بحریہ ٹاؤن کراچی:الاٹمنٹ غیر قانونی قرار، پلاٹس کی فروخت روکنے کا حکم

ذرائع کا کہنا تھا کہ نیب کی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے مبینہ طور پر 12 ہزار ایکڑ زمین پر غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ نیب نے بحریہ ٹاؤن کی اراضی بندی کے لیے سروے آف پاکستان کی مدد حاصل کی جس کی بنیاد پر احتساب ادارے کو قبضے کی حدود کا پتہ چل سکا۔

خیال رہے کہ نیب نے اس حوالے سے عدالت عظمیٰ میں جامع رپورٹ جمع کرا رکھی ہے جس کے بعد بحریہ ٹاؤن کراچی کو رہائشی، کمرشل پلاٹوں اور عمارتوں کی فروخت سے روک دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاون کے خلاف رپورٹ پر کارروائی کا مطالبہ

سپریم کورٹ نے نیب کو اس حوالے سے تحقیقات مکمل کرنے کے لیے 3 ماہ کی وقت دیا تھا۔

نیب تحقیقات میں حیرت انگیز حقائق کے حوالے سے ذرائع کا کہنا تھا کہ ملیر ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایم ڈی اے) کے پاس ایسی کوئی زمین نہیں جس کی وجہ سے بحریہ ٹاؤن کی جانب سے اپنے رہائشی منصوبے کے لیے غیر قانونی طور پر زمینیں حاصل کی گئیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ ایم ڈی اے جیسے ادارے کا کام غریب طبقے کے لیے کم قیمت رہائشی سوسائٹیز کا آغاز کرنا ہے جس میں ایک گھر کی قیمت 10 لاکھ سے 15 لاکھ کے درمیان ہونی چاہیے تاہم بحریہ ٹاؤن میں ایک گھر کی کم سے کم قیمت 45 لاکھ سے 50 لاکھ کے قریب ہے۔

اس سے قبل قومی احتساب ادارے کے کراچی ڈویزن میں بورڈ کا اجلاس ہوا جس کے حوالے سے نیب کی جانب سے پریس ریلیز جاری کی گئی تھی۔

پریس ریلیز کے مطابق تحقیقاتی ٹیم نے بورڈ کو بتایا کہ اس کی تحقیقات مکمل ہوچکی ہیں اور ان کے پاس بحریہ ٹاؤن کے خلاف ناقابل تردید شواہد ملے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان شواہد میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ بحریہ ٹاؤن نے ریوینیو ڈپارٹمنٹ، ضلع ملیر، ایم ڈی اے، اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے چند افسران کی مدد سے سپر ہائی وے پر ہزاروں ایکڑ پر مبنی قیمتی زمینیں حاصل کیں جو کولونائزیشن آف گورنمنٹ لینڈ ایکٹ 1912، ایم ڈی اے ایکٹ 1993 اور سندھ بلڈنگ کنٹرول آرڈیننس 1979 کی خلاف ورزی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کیس کے حوالے سے حقائق پر مشتمل جامع بیان سپریم کورٹ میں جمع کرادیا گیا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں