پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈی جی میجرجنرل آصف غفور نے کہا ہے کہ بھارت نے 13سال میں 2ہزارسے زائد بارجنگ بندی معاہدےکی خلاف ورزی کی۔ عام شہری بھارتی فائرنگ کا زیادہ نشانہ بنے ہیں تاہم دونوں ممالک جوہری طاقت ہیں اس لیے جنگ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔

راولپنڈی میں پریس کانفرنس کے دوران میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے 2018 میں 1577 مرتبہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کی گئی۔

بھارت کی جانب سے سرحد پر کی جانے والی خلاف ورزیوں کو دہراتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 2017 میں ایک ہزار 881 مرتبہ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں کی گئیں جس کے دوران 52 افراد جاں بحق اور 254 افراد زخمی ہوئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور بھارت کے ساتھ فائر بندی معاہدے کی مکمل پاسداری کرنا چاہتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ ڈی جی ایم اوزنے جو اتفاق کیا تھا اس پرعمل کیا جائے۔

میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ ہماری امن کی خواہش کو کمزوری نہ سمجھا جائے۔

پاکستانی میڈیا کی اس معاملے پر ذمہ دارانہ رویے کی تعریف کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اسلام آباد میں سارک کے کچھ صحافیوں سے اچھی بات ہوئی اور امید کرتے ہیں بھارتی میڈیا اور فوج اس کو بہتری کی طرف لے جائیں گے۔

سرحد میں کشیدگی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ہم بھارت کی جانب سے کیے گئے پہلے فائر کو نظر اندازکرتے ہیں جس سے شہریوں کا جانی نقصان نہیں ہو تاہم دوسری مرتبہ کیے فائر کا اسی طرح جواب دیا جائے گا۔

انھوں نے کہا کہ 'بھارت کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ وہ کہاں جانا چاہ رہا ہے کیونکہ ہم دونوں جوہری طاقت ہیں اور جنگ کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے'۔

پاک -افغان سرحد پر باڑ کی تعمیر

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ پاکستان سے زیادہ کسی کی خواہش نہیں کہ افغانستان میں امن قائم ہو۔

انھوں نے کہا کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کشیدہ تھے لیکن پاکستان کا موقف تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ فوج نے عوام کی مدد سے لڑی ہے اور وہ کام کر دکھایا ہے جو دنیا کی کوئی بھی فورس نہیں کرسکتی تھی۔

میجرجنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ محفوظ سرحد پاکستان اور افغانستان کے حق میں ہے اور اس حوالے سے افغانستان کے وفد کے ساتھ بہت مثبت بات چیت ہوئی۔

انھوں ںے کہا کہ افغان سرحد پرباڑ لگانے کے بعد سے سرحد پار سے فائرنگ کے 71 واقعات ہوئے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ہم نے سیکھا ہے کہ سب سے پہلے پاکستان ہے اور ہم ہر وہ کام کریں گے جو پاکستان کے مفاد میں ہو۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ مل کردہشت گردی کے مشترکہ چیلنج سے نمٹنا چاہتے ہیں اور واضح کرتے ہیں کسی بھی کالعدم تنظیم کا منظم نیٹ ورک پاکستان میں موجود نہیں ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم افغان مہاجرین کی باعزت واپسی چاہتے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ

میجرجنرل آصف غفور نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے خلاف سیکیورٹی فورسز کے استعمال کے تاثر کو رد کرتے ہوئے کہا کہ پی ٹی ایم کے رہنمائوں منظور پشتین اور محسن داوڑ سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب انھوں نے فاٹا کے صحافیوں سمیت چند صحافیوں تک رسائی کی اور وہ نقیب اللہ محسود کے قتل کے فوری بعد اسلام آباد پریس کلب کے باہر دھرنا دے کر بیٹھے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ وہ بعد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے ملے اور ان کے تحفظات سنے اور معاملے پر کارروائی کی یقین دہانی کرائی۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ صحافیوں سے ملاقات کے بعد انھوں نے کہا کہ پریس کلب کے باہر فاٹا کے چند نوجوان مسلسل احتجاج کر رہے ہیں جس پر پشتین اور داوڑ سے انفرادی طور پر ملے، ان کے مطالبات معلوم کرنے کے بعد فوج کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کا انتظام کیا۔

انھوں نے کہا کہ پشتین اور داوڑ کی جانب سے نقیب اللہ محسود کا ماورائے قانون قتل، لاپتہ افراد کا مسئلہ دھماکا خیز مواد اور فاٹا میں سیکیورٹی چیک پوسٹ کے مسائل کو اٹھایا گیا اور ان سے ان تمام مسائل پر توجہ دینے کا وعدہ کیا گیا تھا۔

میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ ملاقات کے بعد محسن داوڑ نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن مسائل کے حل کی یقین دہانی کے باوجود پی ٹی ایم کی جانب سے احتجاج کا راستہ اپنانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔

انھوں ںے کہا کہ ‘اس کے بعد منظور احمد محسود کا نام منظور پشتین سے کیسے تبدیل ہوا، سوشل میڈیا میں اس کی مہم کیسے شروع ہوئی اور افغانستان میں ایک ہی روز میں 5 ہزار سوشل میڈیا اکاونٹ کیسے وجود میں آگئے’۔

میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ ‘بیرون ملک بنائی گئی ایک ٹوپی کیسے پاکستان درآمد ہونا شروع ہوئی اور 10 افراد کے ایک گروپ نے کیسے پاکستان مخالف نعرے لگانا شروع کیے، اخبارات میں مضامین شائع ہونا کیسے شروع ہوئے اور بعض غیرملکی میڈیا نے فیس بک اور ٹویٹر میں براہ راست کوریج شروع کی’۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے پی ٹی ایم کے جلسوں پر فورس کے استعمال کی ‘سختی سے ممانعت کی تھی’۔

جنوبی وزیرستان کے علاقے وانا میں گزشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ پی ٹی ایم کے رہنما علی وزیر کو جرگے میں مذاکرات کے لیے بلایا گیا تھا لیکن وہ مقامی عمائدین اور امن کمیٹی کے سامنے فوج اور ریاست مخالف نعرے لگارہے تھے تاہم انھیں روکا گیا۔

امن کمیٹی پی ٹی ایم رہنماوں کا انتظار کررہی تھی اسی دوران پی ٹی ایم کے حمایتی وہاں پہنچے اور حالات خراب ہوئے اور دونوں اطراف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ واقعےمیں ہلاکتوں کے بعد فوج نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے متاثرین کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے وہاں سے نکال لیا۔

اسد درانی کی کتاب پر تنازع

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) اسد درانی کی متنازع کتاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے میجرجنرل آصف غفور نے کہا کہ اس حوالے سے انکوائری کی جارہی ہے اور جو بھی نتیجہ آئے گا اس سے میڈیا کو آگاہ کیا جائے گا۔

انھوں ںے کہا کہ اسد درانی نے کتاب میں جو واقعات بیان کیے ہیں وہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد پیش آئے تھے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ‘کتاب میں انھوں نے صرف اپنے خیالات پیش کیے ہیں’اور اگر وہ فوج سے اس کی اجازت لیتے تو اس تنازع کھڑا نہیں ہوتا۔

اسد درانی کی کتاب پر فوج کے فوری ردعمل پر ان کا کہنا تھا کہ اس کی وجہ ان کی ریٹٓائرمنٹ کے وقت ان کا عہدہ تھا۔

انھوں نے کہا کہ ‘پاک فوج میں کسی غلطی پر معافی نہیں دی جاتی چہ جائیکہ ایک سپاہی کرے یا ایک جنرل غلطی کرے’۔

جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ اسد درانی فوج سے قبل ازوقت ریٹائر ہوئے تھے جس کے بعد ان سے فوج کا تعلق نہیں ہوتا لیکن جو کوئی ادارے کا حصہ رہا ہو اس کے فعل کا جائزہ لینا ہوتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں