مدت پوری کرتی اسمبلیوں، نگران وزیر اعظم اور آئندہ انتخابات کے شور کی وجہ سے ان مسائل کی چاپ کسی کو بھی سنائی نہیں دے رہی جو ملک کی معیشت کے لیے بالعموم اور دیہی علاقوں میں بسنے والوں غریب طبقوں کے لیے بالخصوص سنگین معاشی اثرات کا سبب بننے والے ہیں۔

زرِ مبادلہ کے سکڑتے ہوئے ملکی ذخائر، اسٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں بڑھاوا، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا بھرپور امکان اور زراعت کو پہنچنے والے نقصان ایسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے پیدا ہونے والے معاشی مسائل انتخابات کے بعد سر اٹھاتے نظر آئیں گے۔ تاہم دریائوں میں پانی کی شدید قلت کی وجہ سے ملک کی زراعت کو جتنا نقصان پہنچ چکا ہے اس کا اندازہ کرتے ہوئے ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ملک غذائی عدم تحفظ سے بھی دوچار ہوسکتا ہے۔

دسمبر 2017 میں جاری ہونے والی عالمی بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق "پاکستان سالانہ 108 ملین ٹن زرعی اشیا پیدا کرتا ہے جن کی مالیت 13 ارب امریکی ڈالر کے برابر ہوتی ہے۔ گزشتہ سالوں کے دوران گو کہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) میں زراعت کا حصہ کم ہوا ہے باوجود اس کے کہ یہ شعبہ جی ڈی پی میں 21.6 فیصد کی شراکت کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ زرعی شعبہ مجموعی طور پر روزگار کے 65 فیصد مواقع بھی میسر کرتا ہے، جبکہ برآمدات سے ہونے والی آمدنی میں اس شعبے کا حصہ 60 فیصد سے زیادہ ہے۔"

پڑھیے: پاکستان میں زراعت پسماندہ کیوں؟

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے ان نمایاں ممالک میں شامل ہے جہاں 48 مختلف اقسام کی زرعی اشیا پیدا کی جاتی ہیں جن میں چاول، کپاس، گنے اور گندم کی اہم فصلیں بھی شامل ہیں۔ ایسی فصلوں کے حوالے سے سندھ صوبے کا حصہ اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔

ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت سندھ کی زراعت کا مکمل انحصار دریائے سندھ سے حاصل ہونے والے نہری پانی پر رہتا ہے۔ چوں کہ سندھ میں 80 فیصد زیرِ زمین پانی زراعت کے لیے مفید نہیں اور بارشوں کی سالانہ اوسط محض 100 ملی میٹر ہے اس لیے بارشوں اور دیگر ذرائع سے اتنا پانی میسر نہیں ہو پاتا کہ فصلیں اگائی جا سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ سندھ کی زرعی معیشت کو مستحکم رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ نہری پانی بلاناغہ میسر ہوتا رہے۔

لیکن سالِ رواں کے دوران موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بارشوں میں کمی اور برف کے پگھلاؤ میں ہونے والی تاخیر کے باعث ملک میں پانی کے ذخائر شدید کمی کا شکار ہوئے، جس کا اثر خریف میں کاشت ہونے والی فصلوں پر انتہائی منفی انداز سے پڑا ہے۔

یاد رہے کہ خریف کے دوران گنے، کپاس اور چاول جیسی اہم ترین فصلیں اپریل کے آخری ہفتے سے لے کر جون کے وسط تک کاشت کی جا سکتی ہیں لیکن گندم کی کٹائی کے بعد سے پانی کی شدید قلت کی وجہ سے سندھ صوبے کے کاشت کار کپاس اور گنے کی فصل کاشت نہیں کر سکے، جبکہ چاولوں کی کاشت کی خاطر میسر وقت بھی تیزی سے گزر رہا ہے۔

ادارہءِ شماریات سندھ کی ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق سال 15-2014 کے خریف میں سندھ کو 30.8 ملین ایکڑ فٹ پانی میسر ہوا جس کی بدولت صوبے میں 5 لاکھ 96 ہزار 208 ہیکٹرز پر کپاس کی فصل کاشت کی گئی اور 35 لاکھ 72 ہزار 544 گٹھڑیوں پر مشتمل پیداوار حاصل ہوئی۔ اسی طرح 7 لاکھ 81 ہزار 679 ہیکٹرز پر چاولوں کی کاشت کی گئی جس کے نتیجے میں 26 لاکھ 52 ہزار 583 میٹرک ٹن چاول کی پیداوار حاصل کی گئی۔

فصلوں کی کاشت کے علاوہ سندھ کے دیہی علاقوں میں لوگوں کو جن مسائل کا سامنا ہے ان کا ذکر کرتے ہوئے ضلع خیرپور سے تعلق رکھنے والے ایک ٹریکٹر مالک سائیں داد پھلپوٹو نے بتایا ہے کہ "میں فی گھنٹہ کرائے کے عوض، فصل کی بوائی سے قبل، زمینوں میں ٹریکٹر کا ہل چلا کر روزی روٹی کماتا ہوں لیکن گزشتہ تین ماہ سے میرا کام مکمل بند ہے کیونکہ نہروں میں پانی نہ آنے کی وجہ سے زمیندار ہل نہیں چلوا رہے۔ معاشی تنگدستی کی وجہ سے میں تو اپنے بچوں کو عید کے کپڑے بھی خرید کر نہیں دے سکتا۔"

سندھ کا ضلع گھوٹکی کپاس کی بمپر فصل کے حوالے سے ملک بھر میں ممتاز مقام رکھتا ہے۔ لیکن اس دفعہ کپاس کی اہم ترین فصل کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہوئی ہے۔

مزید پڑھیے: کیا سندھ 20 سال بعد بنجر ہو جائے گا؟

گھوٹکی کے ایک کاشتکار عبدالمنان بلو نے بتایا ہے کہ "دو چار ایکڑ والا غریب کسان نہری پانی کا انتظار کرتا رہا، اب تو کپاس کی تاخیر سے کی جانے والی کاشت کا وقت بھی نہیں بچا۔ جن کسانوں نے پانی آ جانے کی امید میں ادھار پکڑ کر ہل چلوائے ان کا تو وہ خرچہ بھی ڈوب گیا۔ جبکہ بڑے زمیندار سولر یا ڈیزل ٹیوب ویل لگوا کر کپاس اور گنے کی کاشت کر رہے ہیں۔"

پانی کی شدید قلت کے باعث اس دفعہ کپاس، چاول اور گنے کی اہم ترین فصلوں کے علاوہ آم، فالسے، دالوں اور سبزیوں کی کاشت کو بھی سخت دھچکا لگا ہے۔ جبکہ مویشیوں کے لیے اگائے جانے والے چارے پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے جس کی وجہ سے حیدرآباد، میرپورخاص، نوابشاہ اور سکھر میں مویشیوں کا چارہ فروخت کرنے والے تاجروں نے چارے کی قیمتیں اچانک بڑھا دی ہیں۔

سندھ چیمبر آف ایگریکلچر کے چیئرمین قبول کھٹیان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ "میرپورخاص، حیدرآباد اور سکھر ڈویژنز میں جن کاشتکاروں نے گنے کی کاشت کی، پانی کی قلت کی وجہ سے وہ فصل بھی تناور نہیں ہو سکی۔ جبکہ سکھر، بینظیرآباد، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژنز میں کپاس کی کاشت کرنا بھی مشکل ہے۔ ایسے میں صرف امید کی جا سکتی ہے کہ اگر 10 یا 15 دنوں میں پانی دستیاب ہوگا تو لاڑکانہ ڈویژن کے اضلاع میں چاولوں کی تاخیری کاشت کی جا سکے گی۔"

قبول کھٹیان کا کہنا ہے کہ "خریف سیزن کے دوران کاشت کی جانے والوں فصلوں کو مجموعی طور پر 80 فیصد نقصان ہوچکا ہے، چنانچہ خدشہ ہے کہ آنے والوں دنوں میں سندھ صوبے میں بالخصوص اور باقی ماندہ ملک میں بالعموم خوراک کی فراہمی عدم تحفظ کا شکار ہوسکتی ہے۔"

انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے ترجمان خالد رانا نے بذریعہ ٹیلی فون بات چیت کرتے بتایا ہے کہ "بارشیں کم ہونے اور درجہ حرارت کم رہنے کی وجہ سے ڈیموں میں پانی کی آمد کم رہی۔ لیکن اب موسم تبدیل ہوا ہے اور پانی کی آمد بڑھنے لگی ہے۔ جس کی بنیاد پر امید ہے کہ آنے والے دس دنوں تک صوبوں کو ان کی طلب کے مطابق پانی مہیا کیا جائے گا۔ گزشتہ ہفتے ڈیموں کی طرف کل ایک لاکھ 08 ہزار کیوسک پانی آ رہا تھا لیکن یکم جون کے دن یہ سطح بڑھ کر 2 لاکھ کیوسک کے قریب آ گئی ہے۔"

ارسا ترجمان نے بتایا کہ "خریف کے دوران سندھ کی طلب 80 ہزار کیوسک روزانہ کے حساب سے ہوتی ہے۔ گزشتہ ہفتے تک سندھ کو لگ بھگ 48 فیصد کمی کے حساب سے 45 ہزار کیوسک پانی دیا جا رہا تھا اور امید ہے کہ آئندہ ہفتے کے دوران سندھ کو طلب کے عین مطابق پانی دیا جائے گا۔"

جانیے: پاکستان نئے ڈیم نہ بنا کر کیا قیمت چکا رہا ہے؟

ورلڈ بینک کی رپورٹ میں سندھ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ "زراعت صوبے کی معیشت کا اہم ستون ہے۔ 4 کروڑ سے زائد آبادی والے اس صوبے کے 60 فیصد لوگ دیہی علاقوں میں رہتے ہیں جن کا گزر بسر زراعت سے منسلک ہے جبکہ صوبے کی 30 سے 35 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔"

ان عوامل کی روشنی میں باریک بینی سے لئے گئے جائزے میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ خریف کی فصلیں کاشت نہ ہونے کی وجہ سے کسان اور کھیتی باڑی کرنے والے دیہاڑی دار مزدور حالیہ دنوں میں معاشی تنگدستی کا شکار ہوچکے ہیں۔ جبکہ زرعی اجناس، کھاد اور فصلوں پر حملہ آور ہونے والے کیڑے مار ادویات کے کاروبار کو بھی دھچکہ لگا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

Khalil Ahmad Jun 08, 2018 04:49pm
Am belongs from Rahim Yar Khan,same situation in.south punjab.
riz.rizwanali Jun 09, 2018 03:53am
Mirpurkhas main tu kaee weeks sy peeny ka pani bhi dastyaab nahi,, Badin, Matli, Tando Jan Mohammad, Jhuddo, Umerkot, yeh sab tail waly areas hain, yahan pani waisy bhi kam hi aata hai magar iss saal pani bilkul bhi nahi aya.. governemnt ko sochna chahiye, wrna jald hi yeh sab areas Thar ban jain gy aur adha sindh berozgar ho jae ga,