خیبر پختونخوا حکومت نے آئین کے ایکٹ 2018 (25ویں ترمیم) کے تحت وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) میں پولیٹیکل ایجنٹ کا عہدہ تبدیل کرتے ہوئے انہیں ان کے علاقے میں ڈپٹی کمشنر کے عہدہ دے دیا۔

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن میں ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹس کو ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر کے عہدے میں تبدیل کردیا گیا۔

خیال رہے کہ 25ویں ترمیم کی 31 مئی کو صدر ممنون حسین کے دستخط کے بعد قانون کا حصہ بن گیا تھا۔

اس سے قبل 27 مئی کو خیبر پختونخوا کی اسمبلی میں اس بل کی توثیق کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں: پشاور: فاٹا اصلاحات بل کی منظوری، جمعیت علمائے اسلام (ف) کا احتجاج

یاد رہے کہ 24 مئی کو فاٹا کا خیبرپختونخوا میں انضام کے حوالے سے 31ویں آئینی ترمیم کا بل حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) اور اپوزیشن کے درمیان افہام و تفہیم کے بعد قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا جسے بھاری اکثریت کے ساتھ منظور کر لیا گیا۔

قومی اسمبلی میں فاٹا کے انضمام کے حوالے سے ہونے والے اس اجلاس میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے بھی شرکت کی۔

قومی اسمبلی اجلاس میں فاٹا اصلاحات بل کی منظوری کے لیے رائے شماری کی گئی جس کی حمایت 229 میں اراکین نے ووٹ دیا جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے منحرف رکن نے اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔

ایک روز بعد سینیٹ میں بھی 31ویں آئینی ترمیم دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی۔

فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام کے بعد کیا ہوگا؟

واضح رہے کہ فاٹا اصلاحات بل کے تحت سپریم کورٹ اور پشاور ہائیکورٹ کا دائرہ کار قبائلی علاقوں تک بڑھایا جائے گا جبکہ ملک میں رائج قوانین پر فاٹا میں عملدرآمد ممکن ہو سکے گا۔

اس کے علاوہ ’ایف سی آر‘ قانون کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ صدرِ پاکستان اور گورنر خیبرپختونخوا کے خصوصی اختیارات بھی ختم ہوجائیں گے۔

فاٹا میں ترقیاتی منصوبے شروع کیے جائیں گے اور صوبوں کے اتفاق رائے سے فاٹا کو قابلِ تقسیم محاصل سے اضافی وسائل بھی فراہم کیے جائیں گے۔

فاٹا بل کی منظوری کے بعد قومی اسمبلی میں فاٹا کی نشتیں 12 سے کم ہوکر 6 ہوجائیں گی، جبکہ خیبر پختونخواہ کا قومی اسمبلی میں موجودہ حصہ 39 سے بڑھ کر 45 نشستیں ہو جائے گا۔

سینٹ میں فاٹا کی 8 نشتیں ختم ہوجائیں گی اور اس کے ساتھ ہی سینٹ اراکین کی کل تعداد 104 سے کم ہوکر 96 ہوجائے گی۔

اسی طرح قومی اسمبلی میں اراکین کی کل تعداد 342 سے کم ہوکر 336 ہوجائے گی جن میں جنرل نشستیں 226، خواتین کے لیے 60 جبکہ اقلیتی نشستیں 10 ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فاٹا کیلئے انضمام سے زیادہ ضروری یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے’

بل کے مطابق 2018 کے انتخابات پرانی تقسیم کے تحت ہی ہوں گے، اور قومی اسمبلی میں منتخب ہونے والے 12 اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

اس کے علاوہ 2015 اور 2018 کے سینٹ انتخابات کے منتخب 8 سینٹ اراکین اپنی مدت پوری کریں گے۔

2018 میں عام انتخابات کے ایک سال کے اندر فاٹا میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات ہوں گے، اور فاٹا انضمام کے بعد خیبر پختونخواہ اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 سے بڑھ کر 145 ہوجائے گی۔

فاٹا انضمام کے بعد خیبرپختونخوا میں فاٹا کی 21 نشستیں مختص ہوں گی، جس میں 16 عام نشستیں، خواتین کے لیے 4 نشستیں جبکہ ایک اقلیتی نشست شامل ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں