واشنگٹن: امریکا اور پاکستان نے افغانستان میں عارضی جنگ بندی کے لیے اس امید کے ساتھ مشترکہ کوششوں کو شروع کردیا تاکہ افغان مصالحتی عمل کا آغاز کیا جا سکے۔

گزشتہ روز منعقد سیمینار میں امریکی حکام نے تصدیق کی کہ واشنگٹن، افغانستان میں امن برقرار رکھنے لیے ‘کثیر الجہت محاذ‘ پر کام کررہا ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان ‘مرکزی کردار’ ادا کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت سے مذاکرات پر مبنی امریکی بیان میں کوئی صداقت نہیں، طالبان

امریکی صدر کی سینئر مشیر لیزا کرٹس نے کہا کہ ‘ہم نے پاکستان سے افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے مدد کی درخواست کی ہے’۔

دوسری جانب امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائیک پومپیو نے گزشتہ روز کہا تھا کہ ‘ہمیں پاکستان کو درپیش سیکیورٹی خدشات سمجھ چکے ہیں اور یقین دلاتے ہیں کہ افغانستان میں امن کی بحالی میں ان کے مفاد کا خیال رکھیں گے’۔

انہوں نے کہا کہ امریکا اور نیٹو فورسز معاہدے کی پاسداری کریں گے اور امریکی اور نیٹو فورسز جنگجوؤں کی جانب سے سیز فائر معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرنے تک حملہ نہیں کریں گے۔

واشنگٹن میں سینئر حکام نے سیزفائر کے حوالے سے پاکستان کے کردار پر تفصیل سے بحث کی، اس موقع پر انہوں نے کہا کہ ‘ہم یقینا پُرامید ہیں کہ طالبان اور وہ ممالک جو طالبان پر تھوڑ ا بہت بھی اثرو رسوخ رکھتے ہیں، جنگ بندی کی حد بندی کے معاملے پر مدد کریں گے’۔

مزید پڑھیں: یہ پہلا موقع نہیں، جب امریکا نے اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکے

امریکی صدر کی سینئر مشیر لیزا کرٹس کا کہنا تھا کہ ‘ہمیں اس مسئلے پر واضح ہونے کی ضرورت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی کارروائیوں میں پاکستان کا کوئی مفاد نہیں ہے، پاکستانی حکام کی کلیدی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو غیر ریاستی عناصر کے استعمال سے روکے’۔

جب ان سے سوال کیا گیا کہ طالبان افغان حکومت کے بجائے امریکا کے ساتھ براہِ راست مذاکرات کے خواہاں ہیں،تو انہوں نے واضح کیا کہ ‘امریکا مذاکرات میں شراکت دار بننے کے لیے تیار ہے لیکن افغان حکومت اور لوگوں کی جگہ پر خود کو رکھ کر معاملات حل کرنے پر آمادہ نہیں’۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز مائیک پومپیو نے چیف آف آرمی اسٹاف (سی او اے ایس) جنرل قمر جاوید باجوہ سے جبکہ مائیک پینس نے نگراں وزیراعظم ناصر الملک سے فون پر بات چیت کی۔

یہ پڑھیں: چین کا امریکا سے درآمدات میں اضافے کا عندیہ

مذکورہ بات چیت کو دونوں ممالک کے مابین سرحد تعلقات میں نرمی کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔


یہ خبر 9 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں