ہر مرتبہ چند مخصوص بچے ہی آگے کیوں بڑھتے ہیں؟

11 جون 2018
اوسط اور آہستہ سیکھنے والے طلباء محض اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔— خاکہ احمد امین
اوسط اور آہستہ سیکھنے والے طلباء محض اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔— خاکہ احمد امین

ہر مرتبہ اسٹیج پر مخصوص طلباء ہی انعامات وصول کرنے کے لیے آتے ہیں، مگر اوسط طلباء اور نسبتاً آہستہ سیکھنے والوں کو اپنا ٹیلنٹ دنیا کے سامنے لانے کا موقع نہیں دیا جاتا۔

اسپیلنگ، کوئز اور ڈیبیٹ مقابلوں میں، کھیلوں اور دیگر چیمپیئن شپس میں جنہیں آپ سب ہم نصابی سرگرمیوں کے طور پر جانتے ہیں، ہر اسکول اور کالج کی سرگرمیوں کا حصہ ہیں۔ یہ مقابلے اس لیے کروائے جاتے ہیں تاکہ طلباء کے ہنر میں بہتری آئے، وہ بااعتماد ہوسکیں، اور ان کی شخصیت میں نکھار آئے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ واقعی سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے یا پھر مخالف ٹیم کو شکست دینے کا؟

میں اس بارے میں کافی عرصے سے سوچ رہی تھی اور اب میں نے بالآخر اس مسئلے پر اپنے تصورات تحریر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسکول سیکھنے کا پلیٹ فارم ہے، ہے ناں؟ لیکن سیکھنے کا مطلب ریاضی کے فارمولے، فزکس کی ایکوئیشنز، کیمسٹری کے ری ایکشن یا پھر برِصغیر کی تاریخ کو رٹ لینا نہیں ہے، بلکہ سیکھنے سے ہمیں زندگی میں مختلف کام کرنے کا طریقہ آتا ہے، کہ آپ کیسے اپنے لیے اس وقت راستہ بنا سکتے ہیں جب آپ کی مدد کے لیے کوئی موجود نہ ہو۔ پھر جب آپ باہر نکلیں اور نئے اور پریشان کن چیلنجز سے واسطہ پڑے تو آپ کس طرح ایک پُراعتماد اور متوازن شخصیت بن کر اُبھر سکتے ہیں۔

یہ اس بارے میں بھی ہے کہ کسی ایسے شخص سے کیسے معنی خیز گفتگو شروع کی جائے جو بہت کچھ جانتا ہو اور آپ کچھ بھی نہ جانتے ہوں۔ مگر بدقسمتی سے ہمارے اسکولوں میں سیکھنا حقیقی معنوں میں سیکھنا نہیں ہے۔ ہر سال ہم اپنے انہی ہم جماعتوں کو اسٹیج پر مباحثے میں حصہ لینے کے لیے آتا دیکھتے ہیں۔ ہم انہی ہم جماعتوں کو فخریہ انداز میں اسٹیج پر بیٹھے ججز کو کسی لفظ کے ہجے بتاتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ وہی چہرے ہیں جو ہر سال دوسرے اسکولوں سے مقابلے کے لیے منتخب ہوتے ہیں۔ یہ سب نہایت مایوس کن اور غیر منصفانہ ہے، ہے کہ نہیں؟

پڑھیے: نمبروں کی بے مقصد دوڑ کا انجام؟

انتخاب اس معیار پر کیا جاتا ہے کہ ’اس کام کے لیے کون سب سے بہترین ہے‘ یا پھر ’کون مخالف ٹیم کو ہرانے میں ہماری مدد کرسکتا ہے‘ لیکن کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ’کون سیکھنے کا متمنّی ہے لیکن بغیر سپورٹ کے کوئی کیسا سیکھ سکتا ہے؟‘۔ وہ ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ ’کون بہترین ہے؟‘، مگر کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ ’بدترین میں بہترین کو کیسے دریافت کیا جائے؟‘

ہر مرتبہ اوسط اور آہستہ سیکھنے والے طلباء پیچھے رہ جاتے ہیں کیوں کہ کوئی بھی انہیں آگے آنے کا موقع نہیں دینا چاہتا۔ ہاں، وہ اس لیے مسترد کردیے جاتے ہیں کیوں کہ ان کا انگلش کا لہجہ اچھا نہیں ہوتا لہٰذا انہیں مباحثے کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا، یا پھر ان کے ہجے کمزور ہوتے ہیں اس لیے وہ اسپیلنگ بی (Spelling Bee) کے مقابلوں میں حصہ نہیں لے سکتے۔

اساتذہ اور اسکول یا اداروں کی انتظامیہ کو یہ چیز ذہن میں رکھنی چاہیے کہ انگلش ہماری مادری زبان نہیں ہے اس لیے ہمارا لہجہ امریکی یا برطانوی نہیں ہوسکتا۔ کمزور ہجوں کو زیادہ پریکٹس کے ذریعے ٹھیک کیا جاسکتا ہے۔ یہاں تک کہ مقابلے میں حصہ لینے والے ذہین ترین طلباء بھی دن اور رات پریکٹس کرتے ہیں اور آخر میں یہ کہ اعتماد ہمیشہ اساتذہ اور گھر کے بڑے افراد بڑھاتے ہیں، اُس وقت بھی جب بچوں نے بالکل بھی اچھی کارکردگی نہ دکھائی ہو۔

یہ تمام ہنر زندگی میں بتدریج پیدا ہوتے ہیں کیوں کہ تمام طلباء پیدائشی ذہین یا مباحثے میں طاق پیدا نہیں ہوتے۔ ایک شخص بحث کنندہ کیسے بنے گا اگر اسے کبھی اسٹیج پر چڑھنے کا موقع ہی نہ دیا جائے؟ کوئی اپنے ہجے کیسے بہتر بنائے گا اگر اسے پریکٹس کرنے کی یا کلاس کے سامنے آکر اپنی قسمت آزمانے کی حوصلہ افزائی ہی نہ کی جائے؟ کوئی اچھا بحث کنندہ کیسے بنے گا اگر اس کے آس پاس کے لوگ اس کی حوصلہ شکنی کریں؟

— خاکہ احمد امین
— خاکہ احمد امین

اگر اساتذہ کلاس کے صرف ذہین طلباء پر توجہ دیں گے تو اوسط طلباء کبھی بھی سامنے نہیں آئیں گے۔ وہ ہمیشہ پیچھے رہیں گے اور انہیں کبھی بھی یہ معلوم نہیں ہوسکے گا کہ حاضرین کے سامنے کھڑے ہوکر کچھ پیش کرنے کا احساس کیسا ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف اوسط طلباء (جو کہ ذہین طلباء سے تعداد میں زیادہ ہوتے ہیں) کی تعلیمی کارکردگی متاثر ہوتی ہے بلکہ وہ زندگی کے دوسرے شعبوں میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔

میرا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کوئی بھی زیادہ ذہین یا زیادہ پُراعتماد نہیں پیدا ہوتا بلکہ یہ والدین کی جانب سے مثبت تربیت اور اساتذہ و والدین کی جانب سے حوصلہ افزائی ہے جس کی وجہ سے بچے پُراعتماد بنتے ہیں اور تیزی سے سیکھ پاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بچے اپنی تعلیمی زندگی میں ایک اور عمومی تصور اپنا لیتے ہیں اور وہ یہ کہ چاہے وہ کچھ بھی کریں مگر ٹیچر کے پسندیدہ طالبِ علم یا طالبہ کو ہی منتخب کیا جائے گا یا جیت اسی کی ہوگی۔ چنانچہ وہ اپنی قسمت آزمانے کی بھی کوشش نہیں کرتے۔ زیادہ تر طلباء واقعی آگے آنا اور مختلف سرگرمیوں میں اپنی قسمت آزمانا چاہتے ہیں مگر ان کی ویسے رہنمائی یا حمایت نہیں کی جاتی جیسے کہ کچھ بچوں کی، کی جاتی ہے۔

ایک اوسط طالبِ علم یا طالبہ کو تعلیم اور ہم نصابی سرگرمیوں میں اپنا ہنر سامنے لانے کے لیے ہمیشہ زیادہ رہنمائی اور حمایت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے تو وہ خود سے کرنے میں بہت وقت لیتے ہیں یا پھر ممکن ہے کہ وہ کوشش بھی نہ کریں۔ ہمارے اسکولوں اور کالجوں میں چند مخصوص چہروں کا مختلف غیر نصابی سرگرمیوں میں نظر آنا بھی اسی کی ایک وجہ ہے۔

مزید پڑھیے: کامیاب بچوں کے والدین کی 12 مشترک عادتیں

کیا کبھی کسی نے سوچا ہے کہ کلاس کی جو اکثریت پیچھے رہ جاتی ہے، ان میں بھی کوئی ایسا اسپورٹس چیمپیئن یا ماہرِ بحث کنندہ ہوگا جس کو کبھی تربیت یا رہنمائی نہیں ملی؟ آخر ان کا کسی سرگرمی میں کوئی کردار کیوں نہیں ہوتا؟

چنانچہ نتیجہ یہ ہے کہ تمام اسکولوں میں ہم نصابی سرگرمیوں کے منتظمین کو طلباء کی تربیت اور ان کی ذہنی آبیاری پر توجہ دینی چاہیے، مگر اس کا مقصد مخصوص ہاؤس یا ٹیم کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹرافیاں اکھٹی کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ مقصد جیتنا نہیں ہے، بلکہ شرکت کرنے اور یہاں تک کہ شکست سے بھی سیکھنا مقصد ہے۔ مقصد اپنی خامی کو جان کر اپنے اندر بہتری لانا ہے۔

مجھے پختہ یقین ہے کہ اسکول میں ہر بچے کو اسٹیج پر اپنی قسمت آزمانے کا موقع ملنا چاہیے۔ ٹھیک ہے کہ بہترین طلباء کسی بھی مقابلے میں شرکت کرکے اپنا ہنر بروئے کار لا سکتے ہیں مگر ہمیشہ نہیں۔ ہر مرتبہ نئے طلباء کو حاضرین کا سامنا کرنے کا، اپنے خیالات کے اظہار کا اور اپنی کمزوریوں سے واقفیت حاصل کرنے کا موقع دینا چاہیے۔

انہیں سکھایا جانا چاہیے کہ ’سیکھو، کمانے کے لیے نہیں۔‘

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار کے ینگ ورلڈ میگزین میں 2 جون 2018 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (7) بند ہیں

Fozia Jun 11, 2018 10:50am
بہترین تجزیہ۔ ایسا ہمیشہ سے ہوتا چلا آرہا ہے۔ ہمارے اساتذہ درحقیقت ان ہی طلبا کو آگے بڑھاتے ہیں جو ’’خود‘‘ ہی سب کچھ کرسکتے ہوں۔ یعنی اساتذہ کو خود سے کوئی تکلیف نہ اٹھانی نہ پڑے
IFTIKHAR AHMED Jun 12, 2018 12:30am
It is an appreciated article which described the whole society's delima which can be solve if we just change our attitude as you said "APPRICATION ". PERFECT JOB.
Faizan Jun 12, 2018 12:33am
Behtreen, Buhat Acha Tajzia or Tabsara kiya Aap ny. School, Colleges, Universities unn hi bacho par waqt or mehnat sarf karti hein jo unn k naam mein behtari ka bais banain, oor unn ka business chamak sakain. Or unn students par koi tawajah nhe dety jo ghalaban thora dair sy koi bhe cheez pick karty hein. Mein unhain kamzor student nhe kaho ga. Q k Allah ny unhain kisi or kam mein buhat munfarad banaya hai. Chee Jee k Unhain samajhny mein time lagta hai. I appreciate they way you brought this in people attention. This might help the parents, Teachers and the students that everybody is best in his capacity if he/ she understood whats best in his/ her.
نوید Jun 12, 2018 12:55am
اس کے لئے پورے تعلیمی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔اور سب سے زیادہ ضروری بات یہ کہ انگریزی کے خبط سے جان چھڑائی جائے۔یاں میرے شہر کے سب سے معروف سکول کی وجہ شہرت اس کے علاوہ کچھ نہی کہ یہاں تعلیمی نصاب کو 17 بار دہرایا جاتا ہے اور بچے کو صبح 7 سے رات گیارہ بجے تک سکول میں بند رکھا جاتا ہے
Rashid Jun 12, 2018 01:50pm
Great
ثناءاللہ Jun 12, 2018 02:23pm
You say right..... Final is that..... That necessary for all teacher and parents that try to middle class student.......
ثناءاللہ Jun 12, 2018 02:26pm
اپنی بہت اچھا لکھا ہے کاش اس پر کوئ عمل کریی تو پاکستان کا مستقبل بدل ہوجایگا.....