اسلام آباد: خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے قبائلی علاقوں (سابق فاٹا) میں ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے دفاتر کھول دیئے اور ساتھ ہی علاقے میں تحصیل اور اضلاع کے انتظامی یونٹس بھی متعارف کرادیئے۔

واضح رہے مذکورہ فیصلے سے قبل سابق فاٹا میں انتظامی امور ڈیڑھ صدی پرانے فرینٹئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت چل رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ‘فاٹا کیلئے انضمام سے زیادہ ضروری یہاں بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے’

نگراں وزیراعظم ناصر الملک کی سربراہی میں فاٹا اصلاحات کے حوالے منعقد اجلاس میں شرکاء کو حالیہ پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔

خیبر پختونخوا کے چیف سیکریٹری محمد اعظم خان نے فاٹا اصلاحات پر مفصل رپورٹ پیش کی۔

انہوں نے انتظامی، قانونی اور معاشی امور سے متعلق مسائل کو بھی اجاگر کیا اور ساتھ ہی واضح کیا کہ 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لیے مذکورہ مسائل کو فوری حل کیا جانا ضروری ہے۔

انہوں نے اجلاس کے شرکاء کو بتایا کہ ایجنسیوں اور فرینئٹر پر مشتمل علاقوں کو خیبر پختونخوا کے اضلاع اور تحصیل میں تبدیل کردیا گیا ہے جبکہ پولیٹکل ایجنٹ اور اسسٹنٹ پولیٹکل ایجنٹ کو ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے میں بدل دیا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: فاٹا کو پختونخوا میں ضم کرنے کی مخالفت کیوں کی جارہی ہے؟

اس حوالے سے انہوں نے مزید بتایا کہ ایجنسی ڈیولپمنٹ فنڈ کالعدم ہوجانے کے بعد ٹیکس، لیویز کی وصولی کا عمل بھی روک دیا گیا۔

محمد اعظم خان نے بتایا کہ قبائلی علاقوں میں عدلیہ کے دائرکار کو بڑھانے، پولیس، مقدمات اور جیل سروس سے متعلق امور کا ڈرافٹ تیار کیا جا چکا ہے۔

فاٹا اصلاحات کے حوالے سے اجلاس میں وزیر قانون سید علی ظفر، وزیراعظم کے سیکریٹری، سیکریٹری برائے ریاستی امور اور فرینٹئرریجن، فنانس اور پلاننگ ڈویژن سمیت دیگر اعلیٰ افسران نے شرکت کی۔

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے اجلاس کے شرکاء کو فاٹا اور پاٹا کو حاصل پانچ برس کے لیے ٹیکس چھوٹ اور مالی مواقع کے حوالے سے آگاہ کیا۔

یہ پڑھیں: ’فاٹا، خیبر پختونخوا میں ایک ساتھ انتخابات کرائے جائیں‘

فنانس سیکریٹری نے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے مختص کردہ فنڈز سے متعلق بتایا اور فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے لائحہ عمل کو شفاف انداز میں کرنے کا یقین دلایا۔

نگراں وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ خیبرپختونخوا میں فاٹا کے ضم ہوجانے سے لوگوں کی زندگی پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔


یہ خبر 12 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں