اسلام آباد: پاکستان کی جانب سے بین الاقوامی توانائی معاہدہ (ای سی ٹی) پرباضابطہ دستخط کرنے کی وجہ سے اسے نئے ثالثی سرمایہ کاری قوانین سے خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، جبکہ اس معاہدے کے تحت کئی بااثرسرمایہ کاروں نے دنیا کے مختلف ٹریبیونلز میں کئی ممالک کے خلاف 35 ارب ڈالر کے لیے مقدمہ دائر کیا ہوا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تنبیہ یورپ کے دو غیر منافع ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ کارپوریٹ یورپ اوبزرویٹری (سی ای او) اور دی ٹرانزنیشنل انسٹیٹوٹ (ٹی این آئی) کی پاکستان میں ای سی ٹی کے اثرات کے حوالے سے تحقیق میں سامنے آئی۔

یہ تحقیقی رپورٹ پاکستان میں صرف ڈان اخبار کے پاس ہے۔

پاکستان 2006 سے ای سی ٹی میں نگراں ممالک کے طور پر شامل ہے، تاہم یہ ملک میں زیادہ سرمایہ کاری اور توانائی فنڈنگ کے لیے اس کا مکمل ممبر بننے کا خواہاں ہے۔ دنیا کے 88 ممالک اس تنظیم کے ممبر ہیں، جن میں سے زیادہ تر کا تعلق یورپ سے ہے۔

خیال رہے کہ آئل، گیس اور کوئلے کی بڑی پیداواری کمپنیوں کے ہاتھوں ای سی ٹی ایسا طاقت ور ہتھیار ہے جو ‘کلین انرجی’ کی جانب منتقلی میں حکومتوں کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔

مزید پڑھیں: رینٹل پاور ثالثی: پاکستان سب کچھ نہیں ہارا

رپورٹ میں خبر دار کیا گیا ہے کہ یہ جانتے ہوئے کہ پاکستان میں ثالثی سرمایہ کاری ایک متنازع فعل ہے لیکن پھر بھی حکومت ای سی ٹی کا حصہ بننے کے لیے تیار ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بین الاقوامی کمپنیاں اس بین الاقوامی سرمایہ کاری کی مدد سے حکومتوں کے خلاف 35 ارب ڈالر تک کے مقدمے بین الاقوامی ٹریبیونل میں دائر کیے ہوئے ہیں۔

بین الاقوامی نگراں اداروں کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان اس وقت ایک ترک کمپنی ‘کارکے’ رینٹل پاور کیس میں 80 کروڑ ڈالر کا ثالثی ایوارڈ ختم کروانے کے لیے کوششیں کر رہا ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب پاکستان کو پہلی مرتبہ 1995 میں سوئیٹزرلینڈ کے ساتھ دو طرفہ معاہدے سے 2001 میں بین الاقوامی مقدمے کا سامنا کرنا پڑا، اس وقت حکومت میں کوئی بھی معاہدے کا مواد حاصل نہیں کرسکا، اور انہیں سوئس حکومت سے اس کی نقل کی درخواست کرنا پڑی۔

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ تھر کے ریگستان میں چینی اور پاکستانی سرمایہ کار نئے پاور پلانٹ کے لیے گندے بھورے کوئلے کے لیے کھدائی کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی کی طرف سے پاکستان کے لیے چائے پلانٹ کا تحفہ

مقامی آبادی اپنے آباؤ اجداد کی جائیداد کے حصول کے لیے جنگ کررہی ہے، اور انہیں اس بات کا خدشہ ہے کہ کوئلے کی کانوں کی وجہ سے خشک سالی زدہ خطے میں فضائی آلودگی میں اضافہ، زیرِ زمین پانی ختم ہورہا ہے اور ذریعہ معاش بھی ختم ہوجائے گا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان پلانٹس سے اربوں ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ بڑھتی ہوئی ماحولیاتی تبدیلی والی آب و ہوا میں اخراج ہوگا۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر چین اور پاکستان ای سی ٹی میں شامل ہوجائیں، اور اس کے بعد اگر مستقبل میں پاکستانی حکومت ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے اپنے وعدوں کی پاسداری کا فیصلہ کرتی ہے تو ایسے میں چینی سرمایہ کار اربوں ڈالر کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں