سپریم کورٹ نے خدیجہ صدیقی کی جانب سے ان پر چھریوں کے وار کرنے والے ملزم شاہ حسین کی بریٹ کے خلاف دائر اپیل کو باقاعدہ سماعت کے لیے منظور کردیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس سید منصور علی شاہ پر مشتمل دو رکنی بنچ نے خدیجہ صدیقی کی اپیل پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران عدالت نے ملزم شاہ حسین کو 1 لاکھ کے مچلکے جمع کروانے کی ہدایت کی۔

جسٹس کھوسہ نے کہا کہ کہا کہ کیا وجہ تھی کہ خدیجہ صدیقی اور اس کی چھوٹی بہن نے پوری دنیا کو چھوڑ کر شاہ حسین پر ہی الزام لگایا۔

مزید پڑھیں:لاہور ہائی کورٹ: قانون کی طالبہ کو زخمی کرنے والا حملہ آور بری

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ملزم کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا دونوں فریقین قانون کے طالب علم ہیں، اس واقع کے بعد دونوں نے قانون سے متعلق کافی کچھ سیکھ لیا ہو گا۔

جسٹس کا کہنا تھا کہ واقعہ دن کے وقت ہوا اگر رات ہوتی تو شک کی گنجائش باقی تھی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے اپیل کو باضابطہ طور پر سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد سماعت کے لیے مقرر کر دیا۔

یاد رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ کی جانب سے ملزم شاہ حسین کی بریت کے بعد چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں:خدیجہ صدیقی کیس: لاہور ہائی کورٹ بار کی قرار داد پر چیف جسٹس برہم

چیف جسٹس نے دو روز قبل سپریم کورٹ کی لاہور رجسٹری میں ازخود نوٹس کی سماعت کی اور خدیجہ صدیقی کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد اس سماعت کو جسٹس کھوسہ کے بنچ کو منتقل کردی تھی۔

خیال رہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے 4 جون کو شاہ حسین کو شک کی بنیاد پر بری کرنے کا حکم دے دیا تھا اور کہا تھا کہ پراسیکیوشن الزام ثابت کرنے میں ناکام رہی اور ثبوت بھی پیش نہیں کرسکے۔

خدیجہ صدیقی حملہ کیس

یاد رہے کہ 5 جون 2018 کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے قانون کی طالبہ پر چھریوں کے وار کرنے کے مقدمے میں بری ہونے والے ملزم کی رہائی کا ازخود نوٹس لیا تھا۔

خیال رہے کہ 4 جون 2018 کو لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس سردار احمد نعیم نے فریقین کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد مختصر فیصلہ ملزم کے حق میں سنایا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس لینے کے اختیار کے خلاف قرارداد منظور

واضح رہے کہ خدیجہ صدیقی کو ان کے ساتھی طالب علم شاہ حسین نے 3 مئی 2016 کو شملہ ہلز کے قریب اس وقت چھریوں کے وار سے زخمی کر دیا تھا جب وہ اپنی چھوٹی بہن کو اسکول سے لینے جارہی تھی۔

خدیجہ اپنی 7 سالہ بہن صوفیہ کو اسکول سے گھر واپس لانے کے لیے گئی تھی اور ابھی اپنی گاڑی میں بیٹھنے ہی والی تھی کہ ہیلمٹ پہنے شاہ حسین ان کی جانب بڑھے اور خدیجہ کو 23 بار خنجر کے وار کر کے شدید زخمی کردیا۔

واقعے کے ایک ہفتے کے اندر لاہور ہائی کورٹ میں ملزم کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا، عدالت کے سامنے شواہد پیش کیے گئے اور شاہ حسین کی شناخت یقینی بنانے کے لیے ویڈیو فوٹیج بھی پیش کی گئی۔

مزید پڑھیں: جج پر جانبداری کا دعویٰ نشر کرنے پر عدالت کا میڈیا سے معافی کا مطالبہ

تاہم لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ستمبر 2016 میں ملزم کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست خارج کیے جانے کے باوجود دوماہ بعد شاہ حسین کو سیشن کورٹ سے ضمانت قبل از گرفتاری مل گئی۔

بعد ازاں 29 جولائی 2017 کو جوڈیشل مجسٹریٹ نے شاہ حسین کو 7 برس کی سزا سنادی تھی تاہم رواں سال مارچ میں سیشن کورٹ نے ان کی اپیل پر سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی جس پر مجرم نے دوسری اپیل دائر کردی تھی۔

سینئر وکیل کے بیٹے شاہ حسین نے سیشن عدالت کے 5 سال قید کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کی تھی جس پر لاہور ہائی کورٹ جسٹس نے ان کی بریت کا فیصلہ سنا دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں