واشنگٹن: امریکی سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی (سی آئی اے) نے بھارت کی 2 ہندو انتہا پسند تنظیموں، وشوا ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور راشٹریہ سیوک سنگ (آر ایس ایس) کو ’عسکریت پسند مذہبی تنظیمیں‘ قرار دے دیا۔

سی آئی اے ورلڈ فیکٹ بک میں ان تنظیموں کے بحیثیت عسکری تنظیم اندراج کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔

مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ سی آئی اے کی جانب سے شائع کیے جانے والے نقشے میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو پاکستان کا حصہ دکھایا گیا، مظاہرین کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کے اس قسم کے اقدامات سے اس کے بھارت مخالف رویے کا اظہار ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ہندوستان:’آرایس ایس سب سےبڑی دہشت گرد تنظیم‘

اس حوالے سے بھارتی ذرائع ابلاغ میں ہندو عسکریت پسند تنظیموں کا موقف بھی پیش کیا جارہا ہے، جس میں انہوں نے سی آئی اے کو بذات خود ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا، جو مبینہ طور پر امریکی مفادات کے تحت دنیا بھر میں دہشت پھیلاتی ہے۔

واضح رہے سی آئی اے کی فیکٹ بک میں ہونے والے حالیہ اضافے میں بتایا گیا کہ بھارت میں درجنوں مقامی اور قومی سطح کی سیاسی جماعتیں اور پریشر گروپس اور رہنما ہیں، مذکورہ فہرست میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کو وادی کشمیر میں علیحدگی پسند گروہ کی حیثیت سے درج کیا گیا۔

اس پر بھی بھارت میں مظاہرین کا احتجاج جاری ہے اور ان کا مطالبہ ہے کہ حریت کانفرنس کو دہشت گرد تنظیم یا عسکریت پسند تنظیم قرار دیا جائے۔

مزید پڑھیں: دس ہندو انتہا پسند دہشت گردی سے منسلک

مظاہرین کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کی جانب سے ایک اور مسلمان تنظیم کے معاملے پر نرم دلی کا مظاہرہ کیا گیا اور مولانا محمود مدنی کی جماعت جمعیت علمائے ہند کو محض مذہبی تنظیم قرار دیا جبکہ اسی طرز کی ہندو تنظیم کو عسکری تنظیموں کی فہرست میں رکھا گیا۔

خیال رہے کہ سی آئی اے کی فیکٹ بک میں آر ایس ایس کے رہنما موہن بھگوت اور وی ایچ پی کے رہنما پراوین ٹوگاڈیا کو ان افراد کی فہرست میں رکھا گیا ہے جو مختلف مذہبی یا عسکری تنظیموں، شاؤنسٹ تنظیموں، جن میں فرقہ واریت پھیلانے والے علیحدگی پسند گروہ شامل ہیں، اور علاقائی منافرت پھیلانے والی تنظیموں کی سربراہی کررہے ہیں۔

سی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق بھارت میں طویل المیعاد ترقی کے اعتبار سے ماحول سازگار ہے جس کے اسباب میں نوجوانوں کی تعداد، دوسروں پر انحصار کرنے کی شرح کم ہونا، سرمایہ کاری کی شرح اور بہتر مواقع اور بین الاقوامی معیشت میں اس کا بڑھتا ہوا عمل دخل شامل ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ’پاک ۔ ہند تعلقات میں ہندو انتہا پسند تنظیمیں رکاوٹ‘

رپورٹ میں بھارت کو درپیش طویل المیعاد چیلنجز کا بھی ذکر کیا گیا جس میں عورتوں اور بچیوں کے ساتھ امتیازی سلوک، توانائی کی پیداوار اور تقسیم کا ناقص نظام، انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس کا نفاذ نہ ہونا، عدالتوں میں دہائیوں سے جاری مقدمے، ناکافی ذرائع نقل و حمل، زرعی نظام میں پائی جانے والی خامیاں، غیر زرعی شعبوں میں ملازمتوں کے محدود مواقع، میعاری تعلیم کی ناکافی سہولیات اور دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت کرنے والوں کے لیے وسائل کی کمی جیسے مسائل شامل ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دنیا میں سب سے زیادہ شرح نمو ہونے کے باجود بھارتی حکومت کے مالیاتی اداروں کو 2015 اور 2016 میں قرضوں کے پہاڑ کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس کی وجہ سے کریڈٹ کی شرح کم ہوگئی تھی جبکہ 2017 میں نئے سیلز ٹیکس کے نفاذ کے بعد سے بھی معیشت کی رفتار سست ہوگئی تھی۔


یہ خبر 19 جون 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں