اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے نواز شریف اور ان کے اہلِ خانہ کے خلاف دائر ریفرنسز میں ملزمان کے وکیل خواجہ حارث نے دوبارہ وکالت کرنے کیلئے درخواست دائر کردی۔

وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب کی جانب سے دائر ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کی۔

سماعت سے قبل جب خواجہ حارث جب عدالت پہنچے تو جج محمد بشیر اور نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے انہیں خوش آمدید کہا گیا۔

سماعت کے آغاز میں خواجہ حارث نے عدالت میں درخواست جمع کرائی اور استدعا کی کہ ان کی وکالت چھوڑنے کی درخواست کو منظور نہ کیا جائے کیونکہ وہ دوبارہ اس کیس کی وکالت کرنے کے لیے تیار ہیں۔

مزید پڑھیں: نواز شریف اور مریم نواز لندن روانہ

خواجہ حارث کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں سپریم کورٹ کے 10 جون کے حکم نامے پر تحفظات کا اظہار کیا گیا جس عدالتِ عظمیٰ نے احتساب عدالت کو نیب ریفرنسز 4 ہفتوں میں نمٹانے اور اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد (بشمول ہفتہ اور اتوار) پر کرنے کی ہدایت دی تھی۔

خواجہ حارث نے درخواست جمع کرائی جس میں استدعا کی گئی کہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کی اہلیہ کی طبیعت ناساز ہے جس کی وجہ سے وہ لندن میں ہی کچھ روز قیام کریں گے اور اسی لیے انہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو 7 روز کے لیے عدالت میں حاضری سے استثنیٰ دیا جائے۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف اور مریم نواز کی حاضری سے 7 روز کیلئے استثنیٰ کی درخواست اعتراض لگائے بغیر منظور کرلی، نواز شریف اور مریم نواز اب 25 جون کو عدالت میں پیش ہوں گے۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف پاناما پیپرز کیس کی 2 سال سے پیروی کر رہے ہیں اور وہ نہیں چاہتے کہ اس معاملے میں حقیقت کو نظرانداز کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز کا فوری وطن واپسی کا فیصلہ موخر

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاناما پیپرز کیس ایک بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے جس کے لیے روزانہ کی بنیاد پر ہزاروں دستاویزات کی جانچ پڑتال کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے احتساب عدالت کو ہدایت جاری کی گئی تھی کہ اس کیس کی سماعت روزانہ کی بنیاد پر کی جائے، تاہم اس دباؤ میں کیس کی پیروی کرنا ممکن نہیں ہے۔

جج محمد بشیر نے باور کروایا کہ سپریم کورٹ نے اس کیس کی کارروائی کرنے کے طریقہ کار کو وکیل خواجہ حارث پر چھوڑ دیا ہے۔

بعدِ ازاں خواجہ حارث نے جج محمد بشیر سے دریافت کیا کہ وہ ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ پہلے سنائیں گے یا پھر پھر نواز شریف کے خلاف دائر تینوں ریفرنسز کا فیصلہ ایک ساتھ دیا جائے گا۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف کے خلاف نیب کے حتمی دلائل مکمل

ان کا کہنا تھا کہ نیب کی جانب سے دائر تینوں ریفرنسز میں تمام شواہد تقریباً ایک جیسے ہیں لہٰذا ایک ریفرنس میں سزا سنانے کے بعد یہ مناسب نہیں ہوگا کہ دیگر 2 ایک جیسے ہی ریفرنسز میں دلائل دیے جائیں اور گواہان پیش کیے جائیں۔

سماعت کے دوران انہوں نے اس جانب اشارہ کیا کہ نیب آرڈیننس 1999 کی شق 16 کے مطابق کوئی بھی ریفرنس 30 روز کے اندر خود بخود خارج ہوجائے گا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ استغاثہ نے 9 ماہ گزر جانے کے باوجود تینوں ریفرنسز میں اپنے شواہد پیش کرنا ختم نہیں کیے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اس کیس کے التوا کا ذمہ دار وہ استغاثہ کو نہیں ٹھہرائیں گے کیونکہ یہ بہت ہی پیچیدہ مسئلہ ہے اس لیے تمام ریفرنسز کی سماعت اس طرح کی جانی چاہیے کہ مقررہ وقت تک تمام ریفرنسز کی سماعت مکمل ہوجائے۔

تبصرے (0) بند ہیں