صحت ہر پاکستانی شہری کا وہ بنیادی حق ہے جس کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے مگر یہ حق جمہوری مرحلے میں بار بار تعطل کے ہاتھوں یرغمال بنا ہوا ہے۔

جمہوری ادوار میں بھی سیاسی جماعتوں نے صحت کو برقرار رکھنے اور بڑھانے کے بالکل ذیلی ترجیح پر رکھا ہے۔ ایک ہمہ گیر نظام بنانے کے بجائے توجہ زیادہ تر سرکاری، نجی اور فلاحی شعبے میں مہنگے اور غیر ضروری اسپیشلسٹ علاج کی فراہمی، ٹکڑوں میں بٹے ہوئے پروگراموں، منصوبوں اور اداروں پر رہی ہے جو سب ایک دوسرے کے مدِ مقابل ہیں۔ اس کے علاوہ کمزور حکومتی عملداری والے نجی شعبے میں کوششوں کی نقل اور ضروریات کی کمرشلائیزیشن بھی ایک مسئلہ ہے۔

2013ء کے پارٹی منشور میں صحت کے معاملات کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے سب سے زیادہ حقیقت پسند انداز میں صحت کے منصوبے بنائے جن کے نتائج اقتدار میں رہتے ہوئے ہی نکلے۔

بھلے ہی اس کی مرکزیت پسند حکمتِ عملی اختیارات کی صوبوں کو منتقلی سے پہلے کی حد تک تو قابلِ عمل تھی، مگر صوبوں کی صلاحیتوں میں اضافے کی ضرورت تھی جبکہ ریگولیٹری اداروں کو اصلاحات پر کام کرکے علاقائی سطح پر مسائل کے حل پیش کرنے تھے۔

اس کے برعکس پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) نے خود کو ٹھوس نتائج کے بجائے صرف اصولوں تک محدود رکھا جو سندھ میں اس کی کارکردگی سے واضح ہے۔

گورننس کی عدم موجودگی، صحت کے اخراجات کی بھرپائی کا ایک خراب نظام اور خدمات کی فراہمی میں مسائل کی وجہ سے صحت کی بنیادی ضروریات اب بھی پوری نہیں کی جا سکی ہیں۔

کچھ حد تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے صحت مقاصد پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) جیسے ہی تھے مگر حقیقت میں فوری تبدیلیوں کا نفاذ کیا گیا جس میں سماجی خدمات کے نئے خطوط متعین کیے گئے تاکہ صحت کی ضروریات میں موجود خلیج کا تعین کیا جاسکے اور پُرعزم پروفیشنلز کو متوجہ کرکے ایک 'بہتر' نظامِ صحت ترتیب دیا جاسکے۔

آگے بڑھیں تو 2018ء کے منشوروں کو نئے اور مندرجہ بالا صحت سے متعلق مقاصد کا ایک روڈ میپ ہونا چاہیے۔ ان میں تذکرہ ہونا چاہیے کہ کون سی مختلف اقسام کی صحت کی خدمات پہلے سے موجود ہیں اور ان کے استعمال کی پیمائش کیسے جائے گی۔

منشوروں کی تیاری کے وقت سیاسی جماعتوں کو حقائق اپنے سامنے رکھنے ہوں گے اور کئی خدشات پر توجہ دینی ہوگی۔

مثال کے طور پر، یہ ذہن میں رکھتے ہوئے کہ صحت کی نجی اور فلاحی خدمات میسر ہیں، تو ان خدمات سے مستفید ہونے والوں کی زندگیوں میں کیا تبدیلیاں آرہی ہیں؟ کیا ان سے صحت کا معیار بہتر ہورہا ہے؟ جب سرکاری شعبے میں اصلاحات لائی جارہی ہوں تو یہ پوچھا جانا چاہیے کہ صحت کی کوئی خدمت کس قدر استعمال کی جارہی ہے اور کس مقصد کے لیے؟

یہ جائزہ بھی باقاعدگی سے لیا جانا چاہیے کہ خدمات کی فراہمی سے متوقع نتائج حاصل ہو رہے ہیں یا نہیں، اور اس جائزے کا مقصد پروفیشنلز کے لیے حل ڈھونڈنا ہونا چاہیے بجائے انہیں سزائیں دینے کا۔

جب کسی نئی خدمت کی منصوبہ بندی کی جارہی ہو تو حکومت کے لیے یہ دیکھنا اچھا رہے گا کہ دوسرے (نجی اور فلاحی ادارے) اسی شعبے میں کیا کر رہے ہیں اور آیا اس نئی خدمت کو پہلے سے موجود خدمات کے مقابلے کے بجائے معاون بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ یہ صرف تب حاصل کیا جاسکتا ہے جب وفاقی سطح پر ریگولیٹری نظام موجود ہو۔

اس کے علاوہ یہ سوال بھی ہے کہ ہم صحت کے کس پہلو پر کام کر رہے ہیں؟ کیا سرکاری شعبے کا ریفرل نیٹ ورک موجود ہے اور اسے مریضوں کو ثانوی دیکھ بھال کے لیے ریفر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے؟ کیا ہم صحت کے تمام امور پر کام کرنے کے لیے مختلف پروفیشنلز کی خدمات حاصل کر رہے ہیں؟ ہم کیا کرسکتے ہیں کہ پروفیشنلز اپنی اپنی کمیونیٹیز میں آگاہی پھیلائیں؟ کسی کمیونٹی میں تشخیصی ٹیسٹوں، بیماریوں کی روک تھام اور علاج کی کیا صورتحال ہے؟ اور آخر میں یہ کہ کیا ہم بیماریوں پر نظر رکھ رہے ہیں؟ اگر ہاں، تو بیماریوں کے وقوع پذیر ہونے، ان سے متاثرہ افراد، ان سے متاثرہ علاقوں اور ان کی شدت کے بارے میں اعداد و شمار موجود ہیں؟ اس وقت کیا کیا جائے گا جب نئے اور مہلک کیس پہلے سے موجود خدمات کی صلاحیت اور مہارت سے باہر نکل جائیں؟

سیاسی جماعتوں کو ایک جامع فریم ورک کا عزم کرنا چاہیے جس میں تمام شعبوں کو استعمال کرکے پاکستان کے نظامِ صحت کے ارتقاء کے لیے کام کیا جائے، یعنی پورے ںظام پر محیط ایک حکمتِ عملی بنا کر صحت کی جامع پالیسی تیار کی جائے۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 9 جون 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں