شادی شدہ ہونا صحت مند دل کے لیے بھی ضروری

19 جون 2018
یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو
یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا— شٹر اسٹاک فوٹو

درمیانی عمر میں شریک حیات کا ساتھ امراض قلب اور فالج کا خطرہ کم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

یہ دعویٰ برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا۔

رائل اسٹوک ہاسپٹل کی تحقیق میں 2 دہائیوں کے دوران 42 سے 77 سال کی عمر کے 20 لاکھ سے زائد افراد کا جائزہ لینے کے بعد نتیجہ نکالا گیا کہ شادی شدہ ہونا امراض قلب اور فالج جیسے جان لیوا امراض کا خطرہ کم کرتا ہے۔

مزید پڑھیں : شادی کے بعد لوگ موٹے کیوں ہونے لگتے ہیں؟

اس تحقیق کے دوران یورپ، شمالی امریکا، مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے باسیوں کا جائزہ لینے کے بعد یہ نتیجہ نکالا گیا۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ طلاق شدہ، شریک حیات کی وفات یا کبھی شادی نہ کرنے والے افراد میں خون کی شریانوں سے منسلک امراض جیسے امراض قلب یا فالج وغیرہ کا خطرہ شادی شدہ افراد کے مقابلے میں 42 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

اسی طرح شریک حیات سے محروم افراد میں امراض قلب سے موت کا خطرہ اپنے شادی شدہ دوستوں کے مقابلے میں 42 فیصد جبکہ فالج سے 55 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں : شادی کے لیے بہترین عمر کونسی؟

محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ازدواجی حیثیت بھی شریانوں سے جڑے امراض کے حوالے سے خطرات کی پیشگوئی کے حوالے سے اہم ہے۔

محققین کا ماننا تھا کہ شریک حیات کا ساتھ مشکل وقت میں ایک دوسرے کو تحفظ فراہم کرنے میں مدد دیتا ہے۔

اس سے قبل سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ شادی شدہ جوڑوں کے مقابلے میں تنہا رہنے والوں میں دماغی تنزلی کے امراض کاخطرہ بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔

تحقیق میں بتایا گیا کہ تنہا افراد میں دماغی تنزلی کی بنیادی وجہ تنہائی کا احساس اور سماجی تعاون نہ ملنا ہے، جس سے منفی ذہنی اثرات جیسے ڈپریشن اور ذہنی بے چینی وغیرہ کا امکان بڑھتا ہے۔

اس نئی تحقیق کے نتائج طبی جریدے ہارٹ میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں