ہرات: مغربی افغانستان میں طالبان کے متعدد حملوں میں لگ بھگ 30 افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق افغان حکام کا کہنا تھا کہ طالبان نے اپنا سیزفائر کا معاہدہ ختم ہوتے ہی حملوں کا آغاز کردیا اور صوبہ بادغیس میں حکومتی فورسز کی دو بیسز کو تباہ اور فورسز کے قافلے پر حملہ کیا۔

حکام نے کہا کہ افغان طالبان نے تین روز کے سیزفائر کو حملوں کی منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا۔

صوبائی گورنر عبدالغفور ملک زئی نے بتایا کہ ’نصف سے زائد ہلاکتیں افغان فورسز کے قافلے پر گھات لگا کر حملوں اور سڑک کنارے نصب بموں کے دھماکے سے ہوئیں۔‘

انہوں نے کہا کہ دیگر فوجی اور پولیس اہلکار ان کی بیسز پر دہشت گردوں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: سیز فائر کے دوران خودکش حملہ، 26 افراد ہلاک

طالبان نے صحافیوں کو واٹس ایپ پیغام کے ذریعے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا۔

صوبائی کونسل کے سربراہ عبدالعزیز بیک نے حملوں میں ہلاکتوں کی تصدیق کی اور طالبان پر لڑائی کی معطلی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے علاقے کی جاسوسی کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے بتایا کہ ’سیزفائر کے دوران طالبان نے علاقے میں اپنے جاسوس بھیج کر بیسز کی معلومات اکٹھی کرکے حملے کی منصوبہ بندی کی۔‘

بادغیس گورنر کے ترجمان جمشید شابی نے ’اے ایف پی‘ کو بتایا کہ ضلع بالا مُرغاب میں دو بیسز پر حملوں کے دوران 15 طالبان جنگجو بھی ہلاک اور 21 زخمی ہوئے۔

افغان وزارت دفاع نے اپنے بیان میں کہا کہ علاقے میں لڑائی اب بھی جاری ہے اور طالبان کو افغان سیکیورٹی فورسز کی طرف سے شدید مزاحمت کا سامنا ہے، جبکہ مزید سیکیورٹی بھی تعینات کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ افغان حکومت کی سیزفائر کی مدت میں توسیع کی درخواست مسترد کرنے کے بعد طالبان کا یہ سب سے جان لیوا حملہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں