سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا ہے کہ انہوں نے پارٹی کی قیادت سے استعفیٰ قانونی مشاورت کے بعد دیا لیکن وہ سیاست سے کنارہ کش نہیں ہوئے۔

اپنے ایک ویڈیو پیغام میں انہوں نے کہا کہ پارٹی چیئرمین کے طور پر ڈاکٹر محمد امجد اور سیکریٹری جنرل کے لیے مہرین ملک آدم موزوں ترین ہیں، لہٰذا پارٹی کارکنان ان کی حمایت کریں۔

انہوں نے کہا کہ وطن واپس آکر انتخابات میں حصہ لینے کا مکمل ارادہ تھا مگر اس کام میں حائل رکاوٹیں دور نہ ہوسکیں، جس کے بعد پارٹی رہنماؤں سے مشاورت کے بعد اس وقت وطن واپس نہ آنے کا فیصلہ کیا۔

سابق صدر کا کہنا تھا کہ اے پی ایم ایل کے امیدوار انتخابات میں جائیں، ان کی بھر پور حمایت کروں گا، کیونکہ آنے والے وقت میں اچھے مواقع آئیں گے، جن کے مطابق فیصلے کریں گے۔

پرویز مشرف نے کہا کہ میرے پارٹی چیئرمین شپ سے استعفے کے بعد میری طرف سے سیاست چھوڑ دینے کی قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں، اس لیے میں ذاتی طور پر قوم کو ان امور سے متعلق وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

انہوں نے کہا کہ میرا وطن واپس آکر انتخابات میں حصہ لینے اور عدالتوں کے سامنے خود کو پیش کرنے کا ارادہ تھا، مگر اس ارادے کی تکمیل کی راہ میں کچھ رکاوٹیں تھیں، جن کا دور ہونا ضروری تھا۔

پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ میں نے سب سے پہلے یہ کہا تھا کہ مجھے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے کیونکہ خواجہ آصف کی نااہلی کے احکامات ہائی کورٹ نے جاری کیے تھے جبکہ میرے بارے میں فیصلہ بھی ہائی کورٹ نے جاری کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ جس طرح سپریم کورٹ نے خواجہ آصف کے معاملے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کیا ہے اسی طرح میرے ساتھ بھی ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔

اپنے پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ میرا دوسرا مطالبہ یہ تھا کہ میرا نام ایگزیٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) میں نہ ڈالا جائے کیونکہ نواز شریف کا نام بھی ای سی ایل میں نہیں ڈالا گیا اور وہ لندن سمیت کہیں بھی جا سکتے ہیں، ملک بھر میں جلسوں سے خطاب کرتے ہیں تو مجھے بھی یہ آزادی دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ میرا تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ وطن واپس آنے پر مجھے گرفتار نہ کیا جائے، کیونکہ سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ مجھے عدالت میں پیش ہونے تک گرفتار نہیں کیا جائے گا لیکن اس کے بعد کیا ہوگایہ بات مبہم تھی۔

سابق صدر نے کہا کہ یہ تمام باتیں میرے ارادے کی راہ میں رکاوٹ تھیں،وطن واپس آکر اگر میں نقل و حرکت ہی نہ کرسکوں تو اپنی جماعت کے لیے کیا کرسکوں گا۔

ویڈیو پیغام میں ان کا کہنا تھا کہ پارٹی رہنماﺅں سے مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ یہ وقت واپسی کے لیے موزوں نہیں ہے کیونکہ کہ اس سے مجھے پریشانی اور پارٹی کو مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا، ان فیصلوں سے لوگوں نے سمجھا کہ شاید میں نے سیاست چھوڑ دی ہے لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے،ہم مناسب وقت پر معاملات آگے بڑھائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آنے والے وقت میں بہت سے مواقع ملیں گے جن کے مطابق فیصلے کریں گے اور میں دوبارہ پارٹی کا چیئرمین بنوں گا، آل پاکستان مسلم لیگ کے تمام امیدوار اسی جوش و جذبے سے انتخابات میں حصہ لیں، اچھے سے اچھا کام کریں، میری مدد اور ہمدردی ان کے ساتھ ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے آل پاکستان مسلم لیگ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

اے پی ایم ایل کے جوائنٹ سیکریٹری اطلاعات شہزاد ستی کی جانب سے جاری کیے گئے اعلامیے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف نے مستعفی ہونے کا فیصلہ سپریم کورٹ کی جانب سے ان کی اہلیت کا فیصلہ التوا میں ڈالنے کے بعد کیا۔

اعلامیے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف نے 18 جون کو استعفیٰ دیا جبکہ 20 جون کو سی ای سی نے ڈاکٹر امجد کو نیا سربراہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں