کراچی: نقیب اللہ قتل کیس کی سماعت کے موقع پر مقتول نقیب اللہ کے اہل خانہ نے سندھ ہائیکورٹ کے باہر احتجاج کیا۔

احتجاج کے دوران نقیب اللہ محسود کے اہل خانہ اور جرگہ عمائدین نے سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے خلاف شدید نعرے بازی کی اور ’ قاتل قاتل راؤ انوار قاتل ‘ اور ’راؤ انوار کو پھانسی دو‘ کے نعرے لگائے۔

اس موقع پر قبائلی عمائدین نے کہا کہ نقیب اللہ کے قتل میں ملوث ملزم شعیب شوٹر اور دیگر ملزمان کو فوری گرفتار کیا جائے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس: راؤ انوار کی جیل کو بی کلاس کرنے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

بعد ازاں عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کو سب جیل میں رکھنے کا معاملہ زیر غور آیا۔

اس موقع پر درخواست گزار کے وکیل فیصل صدیقی نے بتایا کہ راؤ انوار اپنے گھر میں موجود ہیں، پھر بھی انہیں مزید سہولیات چاہیے۔

فیصل صدیقی نے بتایا کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دیا گیا ہے، جو غیر قانونی ہے جبکہ اس کیس کے گواہوں کو حراساں کیا جارہا ہے۔

تاہم اس موقع پر عدالت نے فریقین کے وکلاء کو آئندہ سماعت پر تیاری کے ساتھ پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 29 جون تک ملتوی کردی۔

خیال رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کے خلاف نقیب اللہ کے والد محمد خان نے درخواست دائر کررکھی ہے۔

درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل بنا کر رکھا ہے، جو غیر قانونی ہے، محکمہ داخلہ نے بغیر کسی نوٹیفکیشن کے راؤ انوار کو ان کے گھر میں رکھا ہے۔

عدالت میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ راؤ انوار کے گھر کو سب جیل قرار دینے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور ملزم کو جیل منتقل کیا جائے کیونکہ راؤ انوار معصوم شہریوں کا قاتل ہے۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو جنوری میں ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: راؤ انوار آغاز سے انجام تک!

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

انہوں نے بتایا تھا کہ مقتول اس سے قبل بلوچستان میں حب چوکی پر ایک پیٹرول پمپ پر کام کرتا تھا اور اس کے کسی عسکریت پسند گروپ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

واضح رہے کہ 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں