پاکستانی سیاست میں سیاسی اتحادوں کی تاریخ زیادہ انجان نہیں، کیونکہ حکومت بنانے یا پھر کسی حکومت کو گرانے کے لیے طرح طرح کے اتحاد ہم دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ 1954ء میں بنائے گئے جگتو فرنٹ سے لے کر 2018ء میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے) تک بہت سے اتحاد ملکی سیاست کے افق پر چمکے، مگر پاکستانی سیاست میں شاید متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) وہ واحد مذہبی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو 2002ء کے الیکشن کے بعد ایک بار پھر یعنی دوسری اننگز کھیلنے جا رہا ہے۔

اگرچہ یہ اتحاد 2008ء کے انتخابات میں بھی موجود تھا لیکن اس اتحاد کی بڑی جماعت یعنی جماعتِ اسلامی کی جانب سے انتخابات کے بائیکاٹ کی وجہ سے یہ اتحاد غیر مؤثر ہوگیا تھا۔ پاکستان کی 71 سالہ تاریخ میں یہ پہلا اور شاید واحد مذہبی جماعتوں پر مشتمل ایسا اتحاد تھا جسے عوام میں پذیرائی بھی ملی اور یہ ’ڈبل فگر‘ میں اپنے ممبران اسمبلی منتخب کروانے میں کامیاب ہوا۔

جب 2002ء میں یہ اتحاد قائم ہوا تو امریکا کی دہشت گردی کے خلاف جنگ اپنے عروج پر تھی اور پاکستان میں اس مذہبی اتحاد کی کامیابی کے امکانات انتہائی مخدوش تھے لیکن حیران کن طور پر نتیجہ مکمل طور پر برخلاف آیا۔ اس اتحاد میں جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمٰن)، جمعیت علمائے اسلام (سمیع الحق)، جمعیت علماء پاکستان، جمعیت اہلِ حدیث (ساجد میر)، تحریک جعفریہ پاکستان اور جماعتِ اسلامی شامل تھیں جبکہ جمعیت اہلِ حدیث اختلاف کی وجہ سے اس اتحاد سے علیحدہ ہوگئی۔

2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے اہم رہنما
2002ء میں متحدہ مجلس عمل کے اہم رہنما

اس اتحاد کو سب سے زیادہ پذیرائی اس وقت کے صوبہ سرحد میں ملی جبکہ باقی پاکستان میں بھی اس کی کارکردگی ہرگز بُری نہیں تھی جس کی وجہ غالباً اس میں شامل تمام مکاتب فکر کا شامل ہونا تھی۔ صوبہ سرحد کے علاوہ اس اتحاد کو اگر سب سے زیادہ کہیں کامیابی ملی تو وہ شہرِ کراچی تھا جہاں کل ملا کر ایم ایم اے کو 5 نشستیں ملیں۔

اگر 1997ء اور 2002ء کے کراچی کے انتخابی نتائج کا تقابل کیا جائے اور پھر اس کی بنیاد پر 2018ء کے الیکشن پر تجزیہ کیا جائے تو انتہائی حیرت انگیز نتائج اخذ کیے جاسکتے ہیں۔

پڑھیے: متحدہ مجلس عمل بحال: مولانا فضل الرحمٰن صدر منتخب

1997ء میں 3 بڑی جماعتوں نے کراچی میں الیکشن میں حصہ لیا جن میں مسلم لیگ نواز، حق پرست گروپ اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مدِ مقابل تھیں۔ 1997ء کے انتخابات میں مسلم لیگ نواز ملک بھر سے دو تہائی نشستیں حاصل کرنے کے باوجود کراچی سے محض 2 نشستیں ہی جیت سکی جبکہ حق پرست گروپ کو 9 حلقوں میں کامیابی نصیب ہوئی اور پیپلزپارٹی کے حصے میں ایک سیٹ آئی۔ لیکن اگر 2002ء کے الیکشن کی بات کی جائے تو مقابلہ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل کے درمیان تھا۔ کراچی کی 20 نشستوں میں سے 12 پر ایم کیو ایم، 5 پر ایم ایم اے اور 2 پر پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی، جبکہ ایک سیٹ پر متحدہ قومی موومنٹ (حقیقی) کے امیدوار کامیاب ہوئے۔

2002ء میں کراچی کے 5 حلقوں میں ایم ایم اے کی کامیابی کی تفصیل

حلقہ این اے- 239 کراچی ایک سے حکیم قاری گل رحمٰن نے 22100 ووٹ لے کر پیپلزپارٹی کے افتخار حسین کو تقریباً 700 ووٹوں سے شکست دی۔

حلقہ این اے 241 کراچی 3 سے ایم ایم اے امیدوار محمد لئیق خان نے 26800 ووٹ لے کر ایم کیو ایم کے فیروز الدین رحمانی کو 500 ووٹ سے شکست دی۔

حلقہ این اے 250 کراچی 12 سے عبدالستار افغانی 21400 ووٹ لے کر پہلے جبکہ ایم کیو ایم کی نسرین جلیل دوسرے نمبر پر رہیں۔

حلقہ این اے 252 کراچی 14 سے محمد حسین محنتی نے 33000 ووٹ لیے اور ایم کیو ایم کے محمد انتظار حسین قریشی 22800 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے۔

حلقہ این اے 253 کراچی 15 سے اسد اللہ بھٹو نے 28800 ووٹ لے کر ایم کیو ایم کے ڈاکٹر محمد فہیم الدین کو تقریباً 3 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔

اگر کراچی سے صوبائی اسمبلی کی نشستوں کا جائزہ لیا جائے تو

  • پی ایس 90 سے عمر صادق،
  • پی ایس 91 سے حافظ محمد نعیم،
  • پی ایس 93 سے حمیداللہ،
  • پی ایس 116 سے نصر اللہ خان،
  • پی ایس 126 سے محمد یونس بارائی اور
  • پی ایس 128 سے مولانا احسان اللہ اشرف ہزاروی کامیاب ہوئے۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ ایم ایم اے کراچی کے باقی حلقوں میں دوسرے نمبر پر رہی۔ اگر ان حلقوں میں ایم ایم اے اور کامیاب ہونے والی جماعتوں کے درمیان ووٹوں کے فرق کا جائزہ لیں تو 25 جولائی کو ہونے والی انتخابات کے حوالے سے یہ فیصلہ کرنا کافی آسان ہوگا کہ کراچی میں ایم ایم اے کی پوزیشن کیسی ہوسکتی ہے۔

کراچی کے وہ حلقے جہاں ایم ایم اے کو 10 ہزار سے کم ووٹ سے شکست ہوئی

حلقہ این اے 240 کراچی 2 ایم کیو ایم 30400 ووٹ لے کر پہلے جبکہ ایم ایم اے 22700 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہی، یہاں فرق 7700 ووٹ کا تھا۔

حلقہ این اے 245 کراچی 7 میں سخت مقابلہ دیکھنے کو ملا اور یہاں ایم ایم اے کے سید منور حسن 800 ووٹ کے فرق سے الیکشن ہار گئے۔

حلقہ این اے 249 کراچی 9 میں عامر لیاقت حسین نے 30400 ووٹ لیے تھے اور یہاں ایم ایم اے کے عبدالمجید نورانی تقریباً 700 ووٹ کے فرق سے الیکشن ہارے۔

حلقہ این اے 251 کراچی 13 میں ایم کیو ایم کے امیدوار سید صفوان اللہ 23800 ووٹ لے کر پہلے جبکہ عبدالغفار عمر کپاڈیہ نے 22000 ووٹ حاصل کیے، یوں وہ صرف 1800 ووٹ کے فرق سے کامیاب نہ ہوسکے۔

حلقہ این اے 255 کراچی 17 میں ایم کیو ایم کے محمود احمد قریشی 31100 ووٹ لے کر پہلے جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار محمد اسلم مجاہد 27700 ووٹ لے کر دوسرے نمبر پر رہے یہاں بھی فرق صرف 3400 ووٹ کا تھا۔

کراچی کے وہ حلقے جہاں ایم ایم اے کو 10 ہزار سے زائد ووٹ کے فرق سے شکست ہوئی

حلقہ این اے 242 کراچی 4 میں ایم کیو ایم 62600 ووٹ لے کر پہلے جبکہ دوسرے نمبر پر ایم ایم اے کے امیدوار 18300 ووٹ لے سکے مگر تیسرے امیدوار اور ایم ایم اے کے امیدوار کے درمیان فرق تقریباً 12 ہزار ووٹ کا تھا۔

حلقہ این اے 243 کراچی 5 میں ایم کیو ایم کے امیدوار 62200 ووٹ لے کر پہلے اور ایم ایم اے 13100 ووٹ کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی اور تیسرے امیدوار اور دوسرے امیدوار میں فرق 6000 ووٹ سے زیادہ تھا۔

حلقہ این اے 244 کراچی 6 میں ایم کیو ایم پہلے اور ایم ایم اے دوسرے نمبر پر رہی جبکہ ووٹ کے درمیان فرق 25000 کا تھا، جبکہ تیسرے امیدوار اور دوسرے امیدوار میں فرق 21000 ووٹوں سے زیادہ تھا۔

حلقہ این اے 246 کراچی 8 میں ایم ایم اے دوسرے نمبر پر رہی مگر شکست کا مارجن 21000 ووٹ کا تھا۔

حلقہ این اے 247 کراچی 9 میں ایم کیو ایم کے امیدوار کو 51500 ووٹ ملے جبکہ ایم ایم اے امیدوار دوسرے نمبر پر 26500 ووٹ لے سکے۔

حلقہ این اے 256 کراچی 18 سے ایم کیو ایم کے امیدوار 39200 ووٹ لے کر پہلے جبکہ ایم ایم اے کے امیدوار محمد ہاشم صدیقی 22100 ووٹ حاصل کرسکے یوں وہ 17100 ووٹ کے فرق سے الیکشن ہار گئے۔

2002ء کے انتخابات ایسے وقت میں منعقد ہوئے تھے جب متحدہ قومی موومنٹ اپنے پورے جوبن پر تھی اور اسے پرویز مشرف حکومت کی پوری پشت پناہی حاصل تھی۔ ان حالات میں 5 نشستیں جیتنا اور دیگر 5 نشستوں پر 5 ہزار ووٹوں کے مارجن سے دوسرے نمبر پر آنا یقینی طور پر ایم ایم اے کے لیے ایک بڑی کامیابی تھی۔

پڑھیے: متحدہ مجلسِ عمل نے 12 نکاتی انتخابی منشور پیش کردیا

کراچی میں ہونے والے حالیہ آپریشن کے بعد شہر میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں وہ بلا شک و شبہ پُرامن اور صاف و شفاف طریقے سے منعقد ہوئے، اس کے نتیجے میں پیپلزپارٹی بھی جیتی اور متحدہ قومی موومنٹ بھی۔ ایسی صورت میں یہ سوال ضرور اہمیت رکھتا ہے کہ متحدہ مجلس عمل کراچی سے کتنی نشستیں حاصل کرنے کی کوشش کرے گی اور کیا کراچی میں ایم ایم اے 2002ء کا ووٹ بینک اب بھی اپنے پاس رکھتی ہے یا نہیں؟

ان سوالات پر کراچی میں ایم ایم اے کے عہدے داروں کا یہ دعوٰی ہے کہ قومی اسمبلی کی کم از کم 6 نشستوں پر سخت مقابلہ یا پھر جیتنے کی کوشش کی جائے گی، مگر اعداد و شمار اور میرا اپنا تجزیہ یہ ہے کہ اگر ایم ایم اے اپنی پوری جان لڑا دے اور تمام جماعتیں ایک صفحے پر ہوں تو ایم ایم اے 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کرسکتی ہے۔

ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمٰن پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں
ایم ایم اے کے صدر مولانا فضل الرحمٰن پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے ہیں

یہاں یہ امر بھی انتہائی دلچسپ ہے کہ 2013ء سے 2018ء کے دوران خیبرپختونخوا میں تحریکِ انصاف اور اس کی اتحادی رہنے والی ایم ایم اے کی اہم ترین جماعت، جماعتِ اسلامی کراچی میں ایک دوسرے کے مدِمقابل الیکشن لڑنے جا رہی ہیں۔ اب ان دونوں جماعتوں کے پاس 2 آپشن ہیں، یا تو سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی جائے یا پھر ووٹ تقیسم کرکے فائدہ ایم کیو ایم، پی ایس پی، اے این پی اور پیپلزپارٹی کو پہنچایا جائے۔

لیکن شاید ایم ایم اے اور تحریک انصاف کا کراچی میں مل کر الیکشن لڑنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ جہاں جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف خیبر پختونخوا میں اتحادی رہے وہیں جمیعت علماء اسلام (ف) اور تحریکِ انصاف کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، عمران خان کا مولانا فضل الرحمٰن کو ’ڈیزل‘ یا مولانا فضل الرحمٰن کا عمران خان کو ’یہودی ایجنٹ‘ قرار دینا زبان زدِ عام ہے۔

کراچی کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) کی اہمیت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کیونکہ نواز شریف نے کچھ عرصہ قبل کراچی پر توجہ دینے اور پارٹی کے کراچی میں اثر و رسوخ کے حوالے سے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی تھی جبکہ ساتھ ہی مولانا فضل الرحمٰن مسلم لیگ (نواز) کی حکومت کے اتحادی بھی رہے ہیں۔ اب اگر ایم ایم اے مسلم لیگ (ن) اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو پھر ان کی پوزیشن مزید مضبوط ہوجائے گی۔

2018ء کے انتخابات ایک ایسے وقت پر ہو رہے ہیں جب ایم کیو ایم اندرونی اخلافات کے سبب نہ صرف تقسیم ہوچکی ہے، بلکہ اس پارٹی میں قیادت کے مسئلے نے بھی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔ اگر تحریکِ انصاف کی بات کی جائے تو یقینی طور پر 2013ء کے انتخابات میں اس جماعت نے غیر معمولی ووٹ لے کر سب کو پریشان کردیا تھا، لیکن اس شہر سے اپنائیت نہ ہونے کی وجہ سے یہ جماعت بتدریج غیر مقبول ہوتی جارہی ہے، اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ عمران خان کی ساری توجہ پنجاب پر ہے۔

دوسری طرف پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک لیاری اور دیگر علاقوں میں تو ہے مگر شہری علاقوں میں نہیں اور پھر کراچی کی موجودہ صورتحال کی اگر کسی پر سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ پیپلزپارٹی ہی ہے۔ اس لیے شاید پیپلزپارٹی کو اپنی مخصوص نشستوں پر تو کامیابی مل جائے، لیکن شہر کے وسط سے کچھ اچھی خبریں موصول نہ ہوسکیں۔ جہاں تک رہ گئی مسلم لیگ (ن) تو ان کا پارٹی سیٹ اپ اتنا شاندار نہیں کہ وہ متحدہ قومی موومنٹ کے خلا کو پُر کرسکے۔

لہٰذا اوپر دیے گئے اعداد و شمار کی بنیاد پر فیصلہ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا کہ اگر متحدہ مجلس عمل اچھی انتخابی مہم اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرے تو وہ کراچی سے ماضی کے مقابلے میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے، لیکن اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہی تو کراچی میں کسی ایک جماعت کے پاس مینڈیٹ نہیں ہوگا جس کا فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں