سندھ ہائی کورٹ کے جج فیصل کمال کے سیکیورٹی اسکواڈ کی جانب سے مبینہ طور پر حراست میں لیے گئے سماجی رہنما اور وکیل جبران ناصر کی جانب سے ہسپتال سے حاصل میڈیکل رپورٹ میں ان پر تشدد کی تصدیق ہو گئی۔

سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) صدر آصف احمد بُگھیو نے ڈان کو بتایا کہ ’جبران ناصر، جو آئندہ عام انتخابات میں آزاد امیدوار کی حیثیت سے حصہ لے رہے ہیں، کلفٹن کے چوہدری خلیق الزمان روڈ پر ڈرائیونگ کررہے تھے جس دوران ہائی کورٹ کے جج کا قافلہ ان کی گاڑی کے پیچھے آیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جج کی سیکیورٹی اسکواڈ کے اہلکاروں نے جبران ناصر کو قافلے کو راستہ دینے کا اشارہ کیا، تاہم سماجی رہنما نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس پر اسکواڈ کے چند اہلکاروں نے ان سے بدسلوکی کی اور انہیں فریئر پولیس اسٹیشن لے گئے۔‘

سماجی رہنما نے جب سیکیورٹی اسکواڈ کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں میڈیکل ایگزامینیشن کے لیے لیٹر دینے سے انکار کردیا تھا۔

تاہم جبران ناصر کو سٹیزن پولیس لائیژن کمیٹی (سی پی ایل سی) کی جانب سے میڈیکل ایگزامینیشن کا لیٹر ملنے کے بعد انہوں نے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے میڈیکو لیگل سیکشن میں طبی معائنہ کرایا۔

جے پی ایم سی کے ایڈیشنل پولیس سرجن ڈاکٹر شیراز علی خواجہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میڈیکل رپورٹ کے مطابق جبران ناصر کے سینے پر چوٹیں آئی ہیں۔

مزید پڑھیں: جج کے قافلے کو’راستہ نہ دینے پر‘جبران ناصر مختصر وقت کیلئے زیرحراست

ایس پی صدر آصف احمد بگھیو، جو کلفٹن ایس پی کے بھی انچارج ہیں، نے ڈان کو بتایا کہ تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا ہے۔

ایس پی بگھیو نے بتایا کہ جبران ناصر اور سندھ ہائی کورٹ کے جج ناصر کمال کے چیف سیکیورٹی آفیسر کی جانب سے پولیس کو ایک دوسرے کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواستیں موصول ہوئی ہیں تاہم پولیس معاملے کو دیکھ رہی ہے۔

فریئر پولیس کے غلام شاہد امینی نے ڈان کو بتایا کہ جبران ناصر کو سیکیورٹی اسکواڈ کی جانب سے مبینہ طور پر تھپڑ مارا گیا تھا۔

دریں اثناء سی پی ایل سی کے ترجمان کا کہنا تھا کہ جبران ناصر کو سی پی ایل سی گورنر ہاؤس میں داخلے سے منع نہیں کیا گیا تھا تاہم انھیں سیکیورٹی گیٹ پر اس لیے روکا گیا تھا کیونکہ ان کے ساتھ 25 سے 35 افراد بھی تھے جو نعرے بازی کر رہے تھے۔

بعد ازاں معاملے پر تحقیق کے بعد جبران ناصر کو ان کے 2 ساتھیوں کے ہمراہ داخلے کی اجازت دی گئی تھی اور ان کی درخواست پر انھیں لیٹر بھی دے دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں