انتخابات 2018: ’مزیدار پکوڑے کھانے کیلئے تازہ بیسن طلب کریں‘

اپ ڈیٹ 16 جولائ 2018
الیکشن کتنا مختلف ہو گا، انڈے سے نکلنے والے چوزے سے اندازہ ہو جائےگا — فوٹو: شٹر اسٹاک
الیکشن کتنا مختلف ہو گا، انڈے سے نکلنے والے چوزے سے اندازہ ہو جائےگا — فوٹو: شٹر اسٹاک

ماحول میں الیکشن کا درجہ حرارت بتدریج عمودی سمت میں بڑھ رہا ہے، سیاسی نمائندوں سے براہ راست شکایت کے ساتھ احتجاج پر مشتمل ویڈیوز جبکہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کے چٹخارے دار تڑکے نے ماحول کو مزید گرما دیا ہے، الیکشن 2018ء ماضی کے انتخابات سے کتنا مختلف اور منفرد ہوگا، اس کا اندازہ انڈے سے نکلنے والے چوزے سے ہو ہی جائے گا۔

فی الحال، اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے میڈیا پر بات کرلی جائے، جو خود کو بطور ’سیاسی فریق‘ بنا کر پیش کرنے پر تُلا ہوا ہے۔ جس طرح پہلوان کی بصیرت، قوت اور اصول پسندی کا درست پیمانہ اکھاڑہ ہوتا ہے، بالکل اسی طرح میڈیا کے لیے متعین ضابطہءِ اخلاق جانچنے کا صحیح وقت الیکشن یا کوئی اہم نوعیت کا واقعہ ہوسکتا ہے۔

مختلف نوعیت کے واقعات، خصوصاً جس میں تشدد شامل ہو، اس پر نشر یا شائع ہونے والی خبر کا تنقیدی جائزہ لے کر بڑی آسانی سے میڈیا کے اصول پسندی کو درپیش چیلنجز کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے، اس پر پھر کبھی بات ہو گی کہ وہ کون کون سے اور کس نوعیت کے مسائل تھے، جس پر پاکستانی ذرائع ابلاغ نے اپنی نظریاتی دکان کے آگے اصول اور ضابطہ اخلاق کی قربانی دی تاکہ ’عذاب‘ سے بچ سکیں۔

فل الحال یہ ملاحظہ فرمائیں کہ اخبارات میں صفحہ اول پر مضامین نما اشتہار آ رہے ہیں، جن کے عنوانات اگر ’کسی پر بھروسہ نہ کریں‘ ہوں تو بھی کوئی بعید نہیں۔

پڑھیے: انتخابات 2018ء: سب سے بڑی نامعلوم قوت کون؟

’بلامعاوضہ‘ شائع ہونے والے ایسے مضامین نما اشتہار کا مرکزی خیال ’الیکشن سے بغاوت‘ پر مشتمل معلوم ہوتا ہے، بنیادی طور پر تحریر کے ذریعے قارئین کو مشورہ دیا جا رہا ہے کہ اپنے حلقے کے انتخابی امیدوار سے ایک ہزار روپے کے اسٹامپ پیپر پر دستخط لیں، تاکہ جو وعدے وہ الیکشن سے قبل کر رہا ہے، کامیابی کے بعد اپنے وعدوں کو عملی سانچے میں بھی ڈھالے، ورنہ اس کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔

مضامین میں دیا جانے والا مشورہ تو سولہ آنے درست ہے، لیکن حقیقت پسندی سے بہت دور ہے، اگر اس امر کو بھی نظر انداز کردیا جائے تو بھی یہ قابلِ ستائش بات ہے کہ اخبار نے مذکورہ جگہ پر اشتہار شائع کرنے کے بجائے عوام کے ’انتخابی شعور‘ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔

اب ذرا دیگر پہلو پر بھی نظر ڈالیں۔

ایسے مضمون پڑھ کر یہ اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ خیالات کو قرطاس قلم کرنے والا یقیناً خود ادارے کی کوئی اعلیٰ شخصیت ہوگا، جو قارئین کو (انتخابی امیدوار) پر بھروسہ نہ کرنے کے ساتھ کسی کو ووٹ نہ دینے کا مشورہ بھی دے رہا ہے، ایسے اخبارات کو اخبار تو کیا کہیں، کسی کا پمفلٹ ہی کہہ سکتے ہیں۔

تحریر کو پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’ووٹ بیسن کی مانند اور سیاستدان پکوڑے ہیں، مزیدار پکوڑے کھانے کے لیے تازہ بیسن طلب کریں اور ورنہ سودے کی مد میں لگنے والی رقم تاقیامت واپس نہیں ملے گی اور آپ کی محنت کی کمائی ضائع ہوجائے گی‘۔

یہ نکتہ ملاحظہ فرمائیں، ’اپنے ووٹ کو ہلکا مت لیں، اس کے بدلے اپنے بچوں کو اچھا پاکستان دینے کا سودا کریں‘۔

پڑھیے: ووٹ ڈالتے وقت ’ان میں سے کوئی بھی نہیں‘ کا آپشن اور پاکستان

اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ اخبارات نے بھی زبان و بیان پر توجہ دینا ترک کر دیا ہے، زیادہ پرانی بات نہیں جب املا کی غلطی اور جملے درست کرنے کے لیے ادب دوست اور اہل قلم ذرائع ابلاغ کے اداروں میں ہوتے تھے، اخبارات میں ان کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی تھی، یقیناً اگر ان میں سے کوئی ایک ادارے میں موجود ہوتا تو جملے کا حسن برقرار رکھنے کے ساتھ اسے قابلِ فہم بھی بناتا مثلاً ’اپنے ووٹ کی قدر کو سمجھیں‘۔

قلم کار کی سوچ بھی تضاد عکاس ہو تو قاری کے لیے مشکل بڑھ جاتی ہے، کہ جملہ اول درست مانے یا الفاظ ثانی کو ٹھیک سمجھے، مثلاً ایک طرف قارئین پر زور دیا گیا کہ ’ملک میں قانون ہے، نہ عدالت‘ اور اگلے چند نکات کے بعد مشورہ دیا گیا کہ ’مطالبات کسی وکیل یا قانون گو کی مدد سے تیار کروائیں تاکہ کوئی قانونی سقم نہ رہے‘۔

اگر ملک میں قانون یا عدالتی نظام ہی نہیں تو اسٹامپ پیپر پر انتخابی امیدوار سے حلف لینے کی حجت کیوں کی جائے، دوسرا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ذرائع ابلاغ کے ادارے مجموعی طور پر کسی بھی ملک کے انتظامی اداروں کے بارے میں یک طرفہ رائے قائم کر سکتے ہیں؟ کیا آزادی صحافت کا یہ مقصد رہ گیا کہ شہریوں کو اداروں کے خلاف ورغلانے کا شغل فرمایا جائے؟

آزادئ اظہار اور صحافتی اصول اس وقت کس رخ پر موڑ جاتے ہیں، جب ’تعمیراتی مافیا‘ سوسائٹیز کی رہائشی زمین پر قبضہ کرتے ہیں جبکہ اخباری مالکان اشتہارات کی بلاتعطل آمد کی وجہ سے خبریں شائع کرنے سے گریزاں رہتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں