پشاور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ملزم شاکر اللہ، جو ان کے اہل خانہ کے مطابق 2010 سے دیر کے علاقے سے لاپتہ تھے، کی سزا پر عمل در آمد سے روک دیا۔

سزائے موت کے خلاف درخواست ملزم کی اہلیہ کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس پر فیصلے کے لیے سماعت کی گئی۔

ہائی کورٹ میں سماعت جسٹس قلندر علی خان اور جسٹس ایوب خان نے کی۔

مزید پڑھیں: فوجی عدالت سے سنائی گئی سزائے موت پر عملدرآمد روکنے کا حکم

رواں سال جون کے مہینے میں شاکر اللہ کے اہل خانہ کو کوہاٹ جیل خانے سے نوٹس ملا جس میں لکھا تھا کہ ملزم شاکر اللہ کی سزائے موت پر عمل در آمد ہونا ہے تاہم اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ ملزم کو کن مقدمات پر یہ سزا سنائی گئی تھی۔

درخواست کے مطابق ملزم کو ٹرائل کا موقع نہیں دیا گیا اور قانون کے مطابق یہ ہر ملزم کا حق ہے۔

عدالت نے سزائے موت کو معطل کرتے ہوئے وزارت دفاع سے اگلی سماعت میں جواب طلب کرلیا۔

یہ بھی پڑھیں: فوجی عدالت سے مجرم قرار پانے والے کی سزا معطل

واضح رہے کہ 21ویں آئینی ترمیم کے تحت قائم ہونے والی فوجی عدالتوں سے اب تک دہشت گردی میں ملوث کئی مجرمان کو سزائے موت سنائی جاچکی ہے، جن میں سے کئی کو آرمی چیف کی توثیق کے بعد تختہ دار پر لٹکایا بھی جاچکا ہے۔

جنوری 2015 میں پارلیمنٹ نے 21 ویں آئینی ترمیم کی منظوری دے کر فوجی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں توسیع کرتے ہوئے دہشت گردوں کی فوجی عدالتوں میں سماعت کی منظوری دی تھی،جب کہ پہلے فوجی عدالتوں کو صرف فوجی اہلکاروں کے جرائم کی پاکستان آرمی ایکٹ (پی اے اے) 1952 کے تحت سماعت کا اختیار تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں