انقرہ: ترکی میں صدارتی انتخابات کے بعد نو منتخب ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے حلف اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے لیکن صدر طیب اردوان کو پارلیمنٹ میں مجموعی اکثریت حاصل کرنے کے لیے اپنی حریف سیاسی جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی) پر انحصار کرنا ہوگا۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق طیب اردوان کی حکمراں جماعت جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی (اے کے پی) پارلیمانی انتخابات میں صرف 295 نشستیں حاصل کرسکی تھی جبکہ ایم ایچ پی نے بہترین کارکردگی کی بنیاد پر 49 نشستیں حاصل کیں۔

یہ بھی پڑھیں: طیب اردوان ترک انتخابات میں ایک مرتبہ پھر کامیاب

واضح رہے کہ 24 جون کو منعقد صدارتی انتخابات میں طیب اردوان کو 53 فیصد جبکہ ان کے قریبی حریف محرم انسے کو 31 فیصد ووٹ ملے۔

ترکی کے نئے آئین کے تحت صدر کو زیادہ اختیارات حاصل ہوں گے جس پر ناقدین کی تنقید کا سلسلہ وفقے وفقے سے جاری ہے۔

سیاسی ماہرین کے مطابق ایم ایچ پی، خارجہ پالیسی اور کردش تنازعے پر اے کے پی کو مشکل وقت دے سکتی ہے۔

پارلیمنٹ میں اپوزیشن کا کردار سیکولر جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) ادا کرے گی جس نے 146 نشستیں حاصل کیں تھی۔

مزید پڑھیں: ترک فورسز جلد شامی شہر عفرین کا محاصرہ کرلیں گی، رجب طیب اردوان

کردش حامی جماعت پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (ایچ ڈی پی) کی اعلیٰ قیادت کو حراست کا سامنا رہا، تاہم اب وہ 7 نشستیں حاصل کرکے دوسری بڑی اپوزیشن بن کر ابھری۔

اس سے قبل طیب اردوان نے اپنی پارٹی کو ملک کی سب سے بڑی پارٹی قرار دیا تھا لیکن پارلیمنٹ میں طیب اردوان کو اپنی بالا دستی قائم رکھنے کے لیے کسی ایک سیاسی حریف سے اتحاد کرنا پڑے گا۔

خیال رہے کہ ترکی کے انتخابات کے لیے 5 کروڑ 60 لاکھ مقامی شہریوں اور 30 لاکھ دیگر ممالک میں مقیم ترک شہریوں کو حق رائے دہی استعمال کرنے کے لیے رجسٹر کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وہ سیاستدان جوکامیاب اداکار نہ بن سکے

ترکی کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک ساتھ پارلیمانی اور صدراتی انتخابات منعقد ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں