سیاسی جماعتوں کے منشور میں ملک کو درپیش معاشی چیلینجز کا ذکر نظر انداز

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2018
ملکی معیشت میں مالی خسارہ ریکارڈ سطح کو چھو رہا ہے۔
ملکی معیشت میں مالی خسارہ ریکارڈ سطح کو چھو رہا ہے۔

رواں مالی سال کے اختتام پر ملک کا بیرونی خسارہ 17 سے 18 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح پر ہونے اور مرکزی سرکاری بینک کے ذخائر 10 ارب ڈالر کی کم ترین سطح پر ہونے کے باوجود کسی سیاسی جماعت کی جانب سے پاکستان کو درپیش چیلنجز کو اپنے انتخابی منشور کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 31 مئی 2018 تک پاکستان کی حکمران جماعت رہنے والی پاکستان مسلم لیگ (ن) اور 2013 تک اقتدار پر فائز رہنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کرچکی ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اقتدار میں آنے کے بعد کے ابتدائی 100 دن کا ایجنڈا پیش کرچکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: الیکشن سے قبل روپے کی قدر میں کمی نے معاشی خدشات پیدا کردیے

بظاہر جو بھی جماعت اقتدار میں آئے گی اسے بیرونی قرضوں، جن میں سے کچھ حالیہ بجٹ میں بھی درج ہیں، کو محفوظ بنانے کے لیے بیوروکریسی کی دانائی پر انحصار کرنا پڑے گا، تاکہ بین الاقوامی تقاضوں کو پورا کرنے کے اقدامات کیے جاسکیں۔

واضح رہے کہ بیرونی قرضوں کے دباؤ اور رواں مالی سال میں بونڈز اور گرانٹس کی رقم صرف 10 ارب ڈالر ہونے کی وجہ سے ممکنہ طور پر انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے مدد لینے کی ضرورت پڑ سکتی ہے، جس کی وجہ سے ہر جماعت سیاسی وجوہات کی بنا پر اس کا ذکر کرنے سے گریزاں ہے، تاہم پی پی پی نے اس حوالے سے کچھ اشارے ضرور دیے ہیں۔

مزید پڑھیں: 'نئی حکومت کے پاس ڈالروں کی خریداری کے لیے کم وقت ہوگا'

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا منشور بیرونی اکاؤنٹس کے چیلنج کے حوالے سے بالکل خاموش ہے، اس میں کہیں درج نہیں کہ ان چیلینجز سے کیسے نمٹا جائے گا، حالانکہ انہوں نے اپنی 5 سالہ حکومت میں معاشی کامیابیوں کا نہ صرف خوب تذکرہ کیا ہے بلکہ آئندہ 5 سال کے لیے بلند و بانگ دعوے بھی کیے۔

خیال رہے کہ 5 سال تک اقتدار کی مسند پر فائز رہنے کے سبب ملک کو درپیش معاشی صورتحال کے بارے میں کوئی سیاسی جماعت مسلم لیگ (ن) سے بہتر ادراک نہیں رکھتی۔

دوسری جانب پی ٹی آئی کے پیش کیے گئے 100 دن کے ایجنڈے میں انتہائی اہم چیلنجز کا ذکر کیا گیا، لیکن برآمدات میں تنزلی، خطرناک حد تک کم ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر اور بڑھتے ہوئے غیر ملکی قرضے پر بات کرتے ہوئے ان کا حل نکالے بغیر ایسے ریمارکس دینا چیلنج ہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شرح سود 6.5 فیصد ہونے سے معاشی خطرات بڑھ گئے

اس حوالے سے جب پی ٹی آئی کے ماہر اقتصادیات سمجھے جانے والے رہنما اسد عمر سے رابطہ کیا گیا تو وہ دستیاب نہ ہوسکے تاہم ایک سینیئر پارٹی رہنما کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے کے بعد ابتدائی 100 دنوں میں پارٹی ہر شعبے کے لیے ایک جامع پلان پیش کرے گی۔

دوسری جانب پی پی پی نے شدید قرضوں کے باعث سابقہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا، اس کے علاوہ پی پی پی نے بنیادی معاشی اصلاحات کا ایجنڈا متعارف کرانے کے اعلان کیا ہے، جبکہ آزادنہ تجارت کے تمام معاہدوں پر نظر ثانی کا بھی عندیہ دیا ہے تا کہ پاکستانی برآمد کنندگان کو برابری کی سطح پر مواقع میسر آئیں۔

تبصرے (0) بند ہیں