گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے

گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے

ابوبکر شیخ

میں نے جب کارل سیگن کی کتاب ’کوسموس‘ کا اردو ترجمہ پڑھا تو اندازہ ہوا کہ یہ کائنات اور اس کا یہ سیارہ ’دنیا‘ اپنے اندر گوناگونیت رکھتا ہے، ارتقا کی نہ جانے کتنی منزلیں طے کرچکا ہے۔ ہمارے آبا ؤ اجداد کہ جن پر سے وہ ارتقائی زمانے گزرے، اُن کی تکالیف اور درد کو وہ ہی بہتر جانتے ہوں گے کیونکہ ہم نے جب آنکھ کھولی تو ہمیں بہت کچھ بنا بنایا ہی حاصل ہوگیا۔ جہاں ہمیں ورثے میں بہت کچھ ملا وہیں ہم نے گنوایا بھی بہت کچھ ہے، ظاہر ہے ہم انسان جو ٹھہرے! سہل پسندی اور آگے بڑھنے کا جوش ہمارے رگوں میں بہتا ہے۔

کھلی کھلی دھوپ تھی، میں ہالیجی جھیل کا ایک پورا چکر لگا کر شمال کی طرف ایک گھنے درخت کی چھاؤں میں بیٹھا تھا۔ سامنے موجود گھنے پیڑ کے نیچے چائے کی ہوٹل بنی ہوئی تھی، وہاں قرب و جوار کے چند لوگ بیٹھے تھے۔ لکڑی کی دھیمی آنچ اور دھویں پر چائے پک رہی تھی، چونکہ ہم شہری بابو ہیں لہٰذا چائے کو بھی اسپیشل ہونا لازم تھا۔ اسپیشل چائے کا میٹھا اور گرم محلول حلق میں اُتارنے کے بعد میں نے جُنگ شاہی جانے کے لیے راستہ پوچھا۔

’جنگ شاہی جائیں گے، کیوں؟‘ ہوٹل پر بیٹھے ہوئے ایک 60 یا 70 برس کے بابے نے سوال کیا۔

’بس ایسے ہی۔ سُنا ہے وہاں کا ریلوے اسٹیشن دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے‘۔

’ہاں اچھا ہے، مگر اب تو ویران ہوچکا ہے۔ اگر وہاں جا رہے ہیں تو وہاں کے ’بالو شاہی‘ ضرور کھائیے گا، بہت ہی ذائقہ دار ہوتی ہیں، اور جنگشاہی کی درگاہ پر بھی حاضری دیجیے گا۔‘ بوڑھے بابا نے سفید داڑھی پر ہاتھ پھیرا، ڈائی کی ہوئی سیاہ مُونچھوں کو تاؤ دیا اور پھر سر پر بندھی ہوئی پگڑی کو کھول کر نئے سرے سے سر پر باندھنے لگا۔

پیڑ کی ٹھنڈی چھاؤں سے نکلے تو مئی کی تیز دھوپ آنکھوں کو چبھنے لگی تھی۔ اگر آپ جنوبی سندھ میں جولائی یا اگست کے مہینوں میں جائیں گے تو سمندر نزدیک ہونے کی وجہ سے سفید و سیاہ بادل مغرب سے مشرق کی طرف جاتے ہوئے پائیں گے، جس کی وجہ سے گرمی کی شدت کا احساس نہیں ہوتا البتہ اپریل اور مئی میں آسمان پر بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا بھی نظر نہیں آئے گا۔ ہم جُنگ شاہی کے لیے نکلے تو باقاعدہ کوئی سڑک یا راستہ نہیں تھا، کہیں کہیں چھوٹی پہاڑیاں تھیں اور جہاں پہاڑیاں نہیں تھیں وہاں بھورے رنگ کی ریت تھی۔ آپ جیسے جیسے شمال کی طرف بڑھیں تو زمین کو اس قدر زرد اور سوگھا پائیں گے کہ جیسے صدیوں سے اس پر کسی بدلی نے برسنے کی عنایت نہیں کی۔

اکا دکا جھاڑیاں نظر آجاتی ہیں۔ ہم جب بھٹکتے اور پوچھتے پاچھتے جنگ شاہی پہنچے جہاں پہاڑیوں کی وجہ سے دھوپ کی تمازت اور بڑھ گئی۔ چھوٹے سے شہر کی دکانیں تو کھُلی تھیں مگر بازار پر ویرانی کا راج تھا۔ ہم نے ریلوے کی پٹریاں عبور کرکے پرائمری اسکول سبز علی بروہی پہنچے جہاں کے ہیڈ ماسٹر شوکت علی بروہی ہمارے منتظر تھے۔

ماسٹر صاحب نے بتایا کہ، ’یہاں کی 3 چیزیں بہت مشہور تھیں۔ یہاں کا مصروف ریلوے اسٹیشن، بالوشاہی اور آٹے پیسنے کی شاہی چکیاں، مگر اب ریلوے اسٹیشن کو پالیسیوں اور پکے راستوں نے لوٹ لیا، جس کی وجہ سے بیچاری مصروفیت روٹھ کر کہیں چلی گئی ہے۔ جبکہ چَکی بنانے والے بھی اب انگلیوں پر گننے جتنے چند کاریگر رہ گئے ہیں البتہ بالو شاہی اب بھی مشہور ہیں۔ ‘شوکت علی بروہی نے جب بالوشاہی کا ذکر کیا تو لفظوں میں بالوشاہی کی شیرینی بھی گُھل گئی۔

’تو چکیاں اب بھی یہاں بنتی ہیں؟‘

’ہاں ایک دو چھاپرے رہ گئے ہیں، جہاں اب بھی چکیاں بنتی ہیں، لیکن جب ریلوے اسٹیشن کا عروج تھا اور گاڑیاں یہاں رُکتی تھیں تب یہاں کی بنی ہوئی چکیاں پاکستان کے دور دراز علاقوں میں جاتی تھیں۔‘

مجھے پتہ نہیں چل سکا کہ اس جگہ سے ’شاہی‘ کا لفظ کیوں جڑا ہوا ہے؟

کچھ نہ کچھ تو ضرور ہوگا مگر میرا زیادہ دھیان بالُوشاہی کی خستگی پر رہا، میٹھی اور ذائقہ دار بالوشاہی کے دور کے بعد ہم ’شاہی چکیاں‘ دیکھنے کے لیے اسکول سے نکل پڑے۔ ہم جب اُس چھاپرے کے نزدیک پہنچے تو پتھروں کو تراشنے کی تیز آواز ہمارے کانوں تک پہنچی۔ ہمارے سامنے مسکیت کا ایک نحیف سا درخت تھا جس کو غالباً بارشوں کے سوا کبھی پانی نہیں ملا، اس درخت کے پاس گھاس پھوس کا ایک خستہ حال چھپر بنا ہوا تھا، سورج کی تیز کرنوں سے بچنے کے لیے چھپر پر پلاسٹک کے ٹکڑے بھی رکھے گئے تھے، چھپر کے گرد دیواریں نہیں تھیں اس لیے شریر ہواؤں کو کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں تھا۔ چھپر کے نیچے چند سنگتراش ہتھوڑی اور تیشوں سے پتھروں کو کاٹ رہے تھے۔ ہر ایک کو پتہ ہے کہ تیشہ کہاں رکھنا ہے اور ہتھوڑی کو کتنی طاقت سے چوٹ لگانی ہے۔ چوٹ لگنے کے ساتھ پتھر کا ٹکڑا اُڑتا اور ساتھ میں ہلکی پتھر کی گرد کا دھواں سا اٹھتا، انہوں نے اپنی ناک کو نہیں ڈھانپا تھا۔

چھپرے کے چھاؤں میں سنگتراش چکیاں بنانے میں مصروف ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
چھپرے کے چھاؤں میں سنگتراش چکیاں بنانے میں مصروف ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

چھپر کے نیچے چند سنگتراش ہتھوڑی اور تیشوں سے پتھروں کو کاٹ رہے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
چھپر کے نیچے چند سنگتراش ہتھوڑی اور تیشوں سے پتھروں کو کاٹ رہے ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

یہ ہتھ چکیاں اب زوال پذیر ہیں—تصویر ابوبکر شیخ
یہ ہتھ چکیاں اب زوال پذیر ہیں—تصویر ابوبکر شیخ

ان کے سر کے بال اور ہاتھ پیلے پتھر کی گرد سے اٹے ہوئے تھے۔ ان سنگتراشوں نے ہمیں ایک پل کے لیے دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگئے۔ کافی دیر بعد کے اس بےرُخی کی وجہ سمجھ میں آئی۔ تاج محمد خاصخیلی نے شکایتی لہجے میں کہا، ’سائیں یہاں بہت میڈیا والے آتے ہیں، فلم بناتے ہیں، فوٹو نکالتے ہیں مگر ہوتا تو کچھ بھی نہیں ہے! پھر فائدہ کیا؟ روزگار نہیں ہے ورنہ یہ کام ہم کبھی نہیں کرتے۔ بس مجبوری میں کر رہے ہیں۔ بچوں کو تو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن گھر کا آٹا ہی بمشکل ہی پورا ہوپاتا بچوں کو اسکول کیسے بھیجیں۔ سال میں 2 عیدیں آتی ہیں اگر ان میں سے ایک عید پر بھی بچوں کو نئے کپڑے مل جائیں تو بڑی بات ہے ورنہ نیلامی کپڑے لے کر گزارا کرتے ہیں۔ یہ فوٹو نکالنے والے ہمارے فوٹو نکال کر خود جاکر پیسے کماتے ہیں۔ ہم کوئی سرکس کے جانور ہیں کیا؟‘

یہ کہتے کہتے اُس کی کمزور آنکھوں میں نمی اترنے اور آواز بھاری ہونے لگی تھی۔ الفاظ ٹوٹنے لگے کچھ لمحوں کے لیے پتھر پر کوئی چوٹ نہیں پڑی، تمام سنگتراش اور ہم خاموش تھے۔

محمد انور نے بتایا کہ،’میں 40 برس کا ہوں اس پتھر کی وجہ سے میری شادی نہیں ہوپائی، میں ٹی بی کا مریض ہوں‘۔ پھیپھڑوں کو خوراک کی صورت میں پروٹین ملنا چاہیے جو نہیں مل رہا بلکہ پھیپھڑوں کو نتھنوں کے ذریعے پتھر سے اُٹھتی ہوئی دھُول مل رہی ہے!

چکی تراشنے والا ایک سنگ تراش—تصویر ابوبکر شیخ
چکی تراشنے والا ایک سنگ تراش—تصویر ابوبکر شیخ

پھیپھڑوں کو خوراک کی صورت میں پروٹین ملنا چاہیے جو نہیں مل رہا بلکہ پھیپھڑوں کو نتھنوں کے ذریعے پتھر سے اُٹھتی ہوئی دھُول مل رہی ہے—تصویر ابوبکر شیخ
پھیپھڑوں کو خوراک کی صورت میں پروٹین ملنا چاہیے جو نہیں مل رہا بلکہ پھیپھڑوں کو نتھنوں کے ذریعے پتھر سے اُٹھتی ہوئی دھُول مل رہی ہے—تصویر ابوبکر شیخ

اب اس چھپرے پر 10 مزدور رہ گئے ہیں جو اس تیز دھوپ میں آٹا پیسنے کی مشینوں کے لیے بڑی چکیاں، اُکھلی، بیلن، ہتھ چکی اور دیگر پتھر سے بننے والی اشیاء بناتے ہیں۔ یہاں کام کرنے والے گلاب پالاری نے بتایا کہ، ‘ہم ٹھیکے پر کام کرتے ہیں اور ایک مہینے میں 3 سے 4 ہزار کی آمدن ہی ہوپاتی ہے‘۔ میں یہاں آکر پشیمان ہی ہوا۔ کہ درد بہت تھے اور حل کوئی نہیں تھا۔ پتھر پر چوٹ پڑنے سے جو پتھر کا ٹکڑا اُڑتا تو لگتا جیسے روح پر درد کا ایک اور زخم سا بن گیا ہو۔ روئے تاباں کا تو تصور ہی محال ہے کہ، چہروں اور ہاتھوں کی اُنگلیوں پر برسوں کی دھول جمی ہے۔ اور زیادہ سوال پوچھنے کی سکت مُجھ میں نہیں تھی کہ تیز دھوپ میں سب نظر آتا تھا۔

یہ بستی اُس طویل سفر کا شاید آخری پڑاؤ ہے اور جنگشاہی اس ہنر کے زوال کی ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں درد اور تکلیف کی کھاردار جھاڑیاں ہی اُگتی ہیں۔ آئیے تاریخ کے صفحات الٹتے ہیں اور چکی کے ارتقائی سفر کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

300 صدی کی ایک ہتھ چکی۔
300 صدی کی ایک ہتھ چکی۔

اگر آپ آخری برفانی عہد کے اختتام کے بعد 10,000 قبل مسیح یعنی پتھر کے دور میں چلے جائیں تو انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن پائیں گے، وہ ضرورتوں کو سمجھنے لگا تھا، فطرت کے اتفاقات بھی اُس کا ساتھ دے رہے تھے۔ اسے اناج کے دانے چبانے میں مشکل ہو رہی تھی یوں درانتی کے ساتھ ’چکی‘ کی ایجاد بھی عمل میں آئی۔ وہ چکی انتہائی سادہ تھی، بالکل سل بٹے کی طرح ایک سپاٹ پتھر اور اس کے اوپر ایک گول پتھر، انسان گول پتھر کو مضبوطی سے پکڑ کر بیجوں کو سپاٹ پر رکھ پیس لیتا تھا۔ یہ چکی کی ابتدائی شکل تھی۔

ہم جب وادئ سندھ کی تاریخ کی ورق گردانی کرتے ہیں۔ تو ’رگ وید‘ میں ہمیں ’روٹی‘ کے ذکر کے ساتھ اُس زمانے میں اُگنے والی فصلوں کے متعلق بھی معلومات مل جاتی ہے۔ بھیرومل مہر چند لکھتے ہیں، ’رگ وید میں ’گودھرم‘ (گندم) اور ’ورھی‘ (چاول) کا ذکر نہیں ملتا۔ مگر ’دھانیہ‘ کا لفظ استعمال ہوا ہے جس میں ہر قسم کے اناج کا ذکر آجاتا ہے، مگر ’مونگ‘، ’تِلِ‘ اور ’جو‘ کا ذکر ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ، تلُوں اور جو کی فصلیں شاندار ہوتی تھیں۔ رگ وید میں ’جو‘ کا ذکر زیادہ ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ، وہ جو کی روٹی اور مونگ کی دال سے اپنی بھوک مٹاتے ہوں گے۔ مونگ کی اُبلی ہوئی دال کو ’مدگ اُدن‘ کہا جاتا تھا۔‘

چکی کی ابتدائی شکل۔
چکی کی ابتدائی شکل۔

پتھر کے زمانے کی ایک ہتھ چکی۔
پتھر کے زمانے کی ایک ہتھ چکی۔

موہن جو دڑو (1,700-2,300 قبل مسیح) اور ٹیکسلا سے آٹے پیسنے کے جو پتھر ملے ہیں وہ تقریباً ایک جیسے ہیں اور سل بٹے سے مشابہہ ہیں۔ ایک حوالے کے مطابق ’’قدیم مصر سے ملنے والے مجسّمے اناج پیسنے کی ابتدائی ہتھ چکیوں کے استعمال کا نمونہ پیش کرتے ہیں۔ یہ چکی دو پتھروں پر مشتمل ہوتی تھی جس کے نیچے والے حصے کی سطح قدرے مجوف اور ڈھلوانی تھی جبکہ اُوپر کا پتھر چھوٹا ہوتا تھا۔ اسے چلانے والی عورت عموماً چکی کی پچھلی جانب گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی اُوپر والے پتھر کو دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوتی تھی۔ پھر وہ پورے زور سے اس پر دباؤ ڈالتی اور اُوپر والے پتھر کو نیچے والے پتھر پر رگڑتی اور دونوں پتھروں کے بیچ موجود اناج کو پیستی تھی۔"

مگر مصر کی ابتدائی چکی کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی، ہوسکتا ہے کہ یہ دیکھنے میں اچھی لگتی ہو مگر صحت کے حوالے سے بالکل اچھی نہیں تھی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ مصر اور وادئ سندھ میں انتظامی لحاظ سے بہت بڑا فرق تھا۔ وادئ سندھ میں مصر جیسی بادشاہت نہیں تھی۔

ٹیکسلا سے ملنے والی ایک چکی۔
ٹیکسلا سے ملنے والی ایک چکی۔

قدیم مصر سے ملنے والا مجسمہ جس میں ابتدائی ہتھ چکی کا نمونہ دیکھا جاسکتا ہے۔
قدیم مصر سے ملنے والا مجسمہ جس میں ابتدائی ہتھ چکی کا نمونہ دیکھا جاسکتا ہے۔

مصر میں محل کے مالکوں اور نوکروں کی خوراک کے لیے زیادہ آٹا درکار ہوتا تھا، اس لیے آٹا پیسنے کا کام مسلسل کرنا پڑتا تھا جس کی وجہ سے زیادہ وقت تک گھٹنوں کے بل جھکے رہنا صحت کے لیے نقصاندہ تھا۔ اُوپر والے پتھر کو آخر تک دھکیلنے اور پھر اُسے واپس کھینچنے کی وجہ سے چکی چلانے والے کی کمر، بازو، گھٹنوں اور پنجوں پر مسلسل دباؤ پڑتا رہتا تھا۔

’’قدیم اسور میں ڈھانچوں میں نقائص کی بابت کی جانے والی تحقیق حیاتیات کے ماہرین کے اس نتیجے پر پہنچنے کا باعث بنی ہے کہ اسی طرح کی ہتھ چکیاں چلانے سے جوان عورتیں بارہا زور لگانے کی وجہ سے زخمی ہو جاتی تھیں۔ اُن کے گھٹنوں کی ہڈی میں خم آ جاتا تھا یا پھر ریڑھ کی ہڈی کو نقصان پہنچتا تھا اور پاؤں کے انگوٹھے میں جوڑوں کا شدید درد ہو جاتا تھا۔ قدیم مصر میں، خادمائیں اکثر ہاتھ سے چکی چلایا کرتی تھیں۔‘‘

مگر یہاں کچھ ایسا نہیں تھا اس لیے چکی میں تبدیلی بڑے زمانے کے بعد آئی۔ 5ویں صدی میں ایشیاء میں موجودہ 2 پاٹوں والی چکی کی ابتدائی صورت ایجاد ہوچکی تھی۔ ہم اگر بائبل کا مطالعہ کریں تو گھومنے والی چکیوں کے متعلق ہمیں بہت کچھ پڑھنے کے لیے مل جاتا ہے۔

’’گھومنے والی چکی جس نے کام آسان کردیا وہ غالباً دوسری صدی میں بحیرۂ روم کے ممالک میں ایجاد ہوئی تھی۔ پہلی صدی عیسوی تک، فلسطین میں رہنے والے یہودی ایسی چکی سے واقف تھے کیونکہ یسوع نے ’ایک بڑی چکی کے پاٹ‘ کا ذکر کِیا تھا۔ (مرقس 9:42) البتہ یہ بات ابھی تک واضح نہیں ہوسکی کہ پہلے ہاتھ سے چلنے والی چکیاں ایجاد ہوئی تھیں یا جانوروں سے چلنے والی چکیاں۔ بہرصورت، ہاتھ سے چلنے والی چکیوں کا یہ فائدہ تھا کہ انہیں ایک سے دوسری جگہ لے جانا اور استعمال کرنا بہت آسان تھا۔ یہ 2 گول پتھروں پر مشتمل ہوتی تھیں جن کا قطر 21 سے 24 انچ ہوتا تھا۔ نچلے پتھر کی اُوپری سطح قدرے اُبھری ہوئی ہوتی تھی جبکہ اُوپر والے پتھر کی نچلی سطح قدرے کھوکھلی اور قوسی ہوتی تھی تاکہ نچلے پتھر کی اُبھری ہوئی سطح اس میں اچھی طرح فٹ ہو سکے۔ اُوپر والا پتھر مرکزی چُول پر ٹکا ہوتا تھا اور اسے لکڑی کے ہینڈل سے گھمایا جاتا تھا۔ عام طور پر دو عورتیں ہینڈل کو پکڑ کر آمنے سامنے بیٹھ جاتی تھیں تاکہ باری باری اُوپر والے پتھر کو گھماتی رہیں۔ (لوقا 17:35) دوسرے ہاتھ سے دونوں میں سے ایک عورت اُوپر والے پتھر کے سوراخ میں دانے ڈالتی جاتی تھی اور دوسری عورت چکی کی اطراف میں بچھائے گئے کپڑے یا ٹرے سے آٹا جمع کرتی جاتی تھی۔ عام طور پر فوجی، ملاح اور مشینوں سے دُور کے علاقوں میں رہنے والے لوگ ایسی چکیوں کی مدد سے اپنی ذاتی ضروریات پوری کرتے تھے۔‘‘

یہ اُس چکی کا سفر تھا جو 10,000 قبل مسیح سے شروع ہوا، موجودہ گھومنے والی چکی کو ہمارے گھروں میں آئے ہوئے 20 صدیاں بیت چکی ہیں۔ ان چکیوں کا رشتہ جب ہر گھر سے جُڑ گیا تو ان پر کمال بھی آیا بلکہ سندھ میں ان چکیوں کے بنانے والوں کو ایک مخصوص نام بھی دیا گیا ’جنڈاوڑا‘ (سندھی میں ہتھ چکی کو ’جنڈ‘ کہتے ہیں، تو جو جنڈ بنانے والے ہیں اُن کا فقط یہ ہی کام ہے کہ وہ جنڈ بنائیں اور گھر گھر جا کر بیچیں اور اپنی روزی روٹی کمائیں)۔ اس حوالے سے میں نے جب ’تھر‘ کے ادیب خالد جوگی سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ،’اب تو وہ دن ہی گزر گئے جب یہ جنڈاوڑے اپنے چکی بنانے کے کام میں مصروف رہتے تھے اور معاشی اعتبار سے بہتر تھے۔ مشینوں کا زمانہ نہیں تھا تو ہر گھر میں چکی کا ہونا ضروری تھا۔

’چکی کا گھر میں ہونا بڑی بات ہوتی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک زمانے میں وہ ’باڑمیر‘ (راجستھان، ہندوستان) کے چٹانی پتھر سے چکیاں بنائی جاتی تھیں، ان پتھروں کو دیگر کے مقابلے میں زیادہ بہتر تصور کیا جاتا تھا، اسی طرح جودھپور کے پتھر سے بنی چکیوں کو زیادہ فوقیت دی جاتی تھی۔

’دور دراز علاقوں میں جہاں انسانوں کی بستیاں آباد ہیں اور سڑکوں کی سہولیات اور راستے دشوار گزار ہیں، جیسے اچھڑو تھر وغیرہ، وہاں آج بھی فجر کے وقت چکی کے پسنے کی آواز سنائی دیتی ہے۔ یوں ان جنڈاوڑوں کا روزگار اب بھی چل رہا ہے مگر بڑی مشکل سے۔ یہ پُرانی چکی کے پاٹ بھی لیتے ہیں اور بڑی محنت سے اُس چکی کو نیا کرتے ہیں اور پھر بیچتے ہیں۔ یہ چکی بنانے والے چکیوں پر مختلف تصاویر بھی تراشتے ہیں جیسے، بکری کے پاؤں کے نشان، مچھلی، چڑیا، مور اور دل وغیرہ اور ان تصاویر کے حوالے سے یہ چکی کو نام دیتے ہیں۔‘

ہتھ چکی۔
ہتھ چکی۔

ہتھ چکی۔
ہتھ چکی۔

یہ کوئی اتنا پرانا زمانہ بھی نہیں ہے، اس دور کو گزرے 40 برس سے زیادہ تو بالکل بھی نہیں ہوئے ہوں گے کہ جب گاؤں میں اکثر ہر گھر کے اندر ایک کونے میں ہتھ چکی (جنڈ) نصب ہوتی اور چکی کے گول اطراف میں مٹی کی ایک گول دیوار بنادی جاتی کہ آٹا پسنے کے بعد باہر نہ گرے اور پھر جب ضرورت کے مطابق آٹا پس جاتا تو اُس کو وہاں سے نکال لیا جاتا اور تس (آٹے رکھنے کا کمہار سے بنایا ہوا برتن) میں رکھ دیا جاتا۔

آٹے پیسنے کا کام اکثر فجر کے وقت کیا جاتا اور یہ روایت تقریباً ہر جگہ اس طرح برقرار تھی کیونکہ آٹے کا پیسنا ضروری ہوتا اور گھر میں کتنے لوگ ہیں اور مہمان کا ذہن میں رکھ کر آٹا پیسا جاتا۔ علی الصبح چکی پیسنے کی ایک بڑی وجہ بھی تھی، دراصل صبح سویرے آرام کے بعد انسان کا جسم توانا ہوتا ہے، رات کا آخری پہر ٹھنڈا ہوتا ہے اس لیے چکی پیسنے والے کو زیادہ گرمی اور تھکان نہیں ہوتی۔ ہر طرف خاموشی ہوتی ہے اور چکی کے چلنے کا اپنا ایک ردھم ہوتا ہے جو آپ کے ذہن کو ایک تراوٹ بخشتا ہے۔ اورشاید یہ سب کچھ اس لیے بھی اچھا لگتا ہو کہ رات کے اختتام کی کس کو خوشی نہیں ہوتی اور چکی کی یہ آواز رات کے اختتام کا جیسے اعلان ہوتی۔

چکی پیسنے کا کام زیادہ تر عورتیں ہی کرتی تھیں، خواتین کو فن اور تخلیقی کام پسند ہوتے ہیں شاید اسی لیے مٹی کی بنائی ہوئی چاردیواری (سندھی میں اس کو ’تھار‘ کہتے ہیں، جس میں آٹا پسنے کے بعد جمع ہوتا رہتا ہے) پر مٹی سے مختلف اشکال بھی بنائی جانے لگیں۔

آج بھی دور دراز علاقوں میں کہیں کہیں علی الصبح چکی کی آواز سنائی دیتی ہے۔
آج بھی دور دراز علاقوں میں کہیں کہیں علی الصبح چکی کی آواز سنائی دیتی ہے۔

بچپن میں جب کبھی کبھار گاؤں جانا ہوتا تب گھروں میں نصب خوبصورت چکیاں بھی دیکھنے کو ملتیں۔ اُن پر مٹی سے مور، چڑیاں، تارے، پھول پتیاں اور مختلف نقوش بنے ہوتے تھے بالکل ایسے جیسے آجکل کڑھی ہوئی چادروں اور تکیوں پر بنائے جاتے ہیں۔ چکی ہمارے گھر اور ثقافت کا ایک اہم جُز بھی بن گئی تھی، یہی وجہ ہے کہ چکی پر لوک گیت بھی تخلیق ہوئے اور شاعروں نے اسے اپنا موضوع بنایا۔

کبیرداس نے تو بڑا محترم جانا چکی کو، کہتے ہیں:

دنیا بڑی بانوری، پتھر پوجن جائے

گھر کی چکی کوئی نہ پوجے، جس کا پیسا کھائے


پتھر پوجے ہری ملے تو میں پُوجوں پہار

تا سے یہ چکّی بھلی، پیس کھائے سنسار

میں نے جس وقت جنگ شاہی کو الوداع کہا اُس وقت شام ہوچکی تھی اور میں پسینے میں شرابور تھا۔ جنگشاہی اس ہنر کے زوال کی ایک چھوٹی سی بستی بن کر رہ گیا ہے کہ اس چکی کے ہنر کی ابتدا بھی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں سے ہوئی تھی۔ کتنی عجیب مشابہت ہے ابتدا اور انتہا میں۔ جہاں سفر کی ابتدا گھاس پھوس کی بستیوں سے ہوئی اور 20 صدیاں گزرنے کے بعد جب اس کا زوال آیا تو وہ بھی گھاس پھوس کے چھپرے میں! دنیا ترقی کرتی آگے چلی گئی اور یہ سنگتراش اس ترقی کے قافلے میں پیچھے رہ گئے۔ شاید وہ اپنے درد اور تکلیفوں کے چبھے ہوئے کانٹوں کو نکال رہے ہوں گے اور جب اوپر دیکھا ہوگا تو قافلہ کب کا جا چکا ہوگا۔ اب یہ بے آب و گیاہ زندگی کے ریگستانوں میں رہتے ہیں اور کسی معجزے کا انتظار کرتے ہیں۔


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔