اسلام آباد: نگراں وزیر قانون اور اطلاعات سید علی ظفر نے کہا ہے کہ عدلیہ، سول اور عسکری سروسز میں شامل ہونے سے قبل مذہبی شناخت کا حلف لینا لازمی قرار دینا امتیازی ہے اور اسے چیلنج کیا جائے گا۔

اس حوالے سے اقلیتوں کے حقوق، مذہب کی آزادی پر مشاورتی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ حکومت روزگار کے معاملے میں سروس کے قانون میں فرق نہیں کرسکتی، میرا ماننا ہے کہ ہماری ججز سمجھتے ہیں اور انسانی حقوق سے بہت اچھے سے واقف ہیں، وہ ان حقوق کے تحفظ کے لیے اپنی ذمہ داری جانتے ہیں لیکن یہ فیصلہ برعکس ہے اور اسے ضرور چیلنج ہونا چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: ختم نبوت شق کی تبدیلی کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

اس مشاورتی سیشن کا انعقاد یورپی یونین کے تعاون سے قومی کمیشن برائے انسانی حقوق ( این سی ایچ آر ) اور پوٹوہار آرگنائزیشن برائے ڈیوپلمنٹ ایڈووکیسی ( پوڈا )کی جانب کیا گیا تھا۔

نگراں وزیر قانون و اطلاعات نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے پر بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ’ عدالتی فیصلہ یا غیر عدالتی فیصلہ ہو، مجھے اختلاف ہے اور وزارت قانون کے انچارج ہیں اور ہم اس فیصلے کو چیلینج کریں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ اس سے کسی کا کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے کہ کسی کا کیا عقیدہ ہے، کیوں کوئی انتی مداخلت کرتا ہے؟ اگر ہم اس ملک کے شہری ہیں تو ہمارے لیے یہی کافی ہے‘۔

خیال رہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے فیصلہ دیا گیا تھا کہ یہ ہر شہری کے لیے ضروری ہے آیا وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم کہ وہ اپنے ’ سچے عقیدے‘ ظاہر کرے اور اس میں ناکام ہونے والا ریاست سے دھوکا دہی اور آئین کا استحصال کرنے کا مجرم کہلائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ’عدالت حکومت کو قانون سازی کرنے کی ہدایات جاری کر سکتی ہے‘

نگراں وزیر قانون نے زور دیا کہ شہری تحفظ کے حقدار ہیں کیونکہ حکومت ہر شہری کو برابر سمجھتی ہے اور ’ ہم پاکستان کے شہریوں کی جانب سے عقیدے اور مذہب کی بنیاد پر کسی تفریق کی اجازت نہیں دے سکتے‘۔

اس موقع پر پاکستان میں یورپی یونین کے نمائندے اینی مارشل کا کہنا تھا کہ یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کیلئے کی جانے والی ہر کوشش کی حمایت کرے گا۔

این سی ایچ آر کے نمائندے شفیق چوہدری کا کہنا تھا کہ تمام طرح کی تفریق ختم کرنے کے لیے ان کی کوششیں جاری ہیں۔


یہ خبر 11 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں