اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا جبکہ فیصلے کے دن طلال چوہدری کو عدالت میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت، اس دوران طلال چوہدری کے وکیل کامران مرتضیٰ اور وکیل استغاثہ ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمٰن عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے آغاز پر کامران مرتضیٰ نے دلائل دیے کہ یکم فروری 2018 کو رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو نوٹ پیش کیا، جس میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کا کلپ توہین آمیز اور عدالتی کارروائی میں مداخلت ہے، آرٹیکل 204 کے تحت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ یکم فروری کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے حکم بھی دیا اور طلال چوہدری کو نوٹس بھی اسی دن جاری ہوا، جس مواد پر چیف جسٹس نے ازخود نوٹس لیا،اس میں طلال چوہدری نے کہا کہ عدالتی مینڈیٹ کی توہین سب سے بڑی توہین ہے۔

مزید پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم

اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے 2 تقاریر پر توہین عدالت کی کارروائی شروع کی، آپ کس دستاویزات کی بات کر رہے ہیں ہمیں معلوم نہیں یہ دستاویز کہاں سے آئیں، جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ یہ وہ دستاویز ہیں جنہیں رجسٹرار سپریم کورٹ نے چیف جسٹس کو نوٹ میں پیش کیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ چیف جسٹس کے حکم کے بعد 22 تقاریر جمع کی گئیں، صرف تین 3 منٹس کی 2 تقاریر پر کارروائی شروع کی گئی۔

اس دوران وکیل طلال چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور توہین عدالت کیس میں سزا کا سامنا کرنے والے نہال ہاشمی کا ذکر کیا اور کہا کہ توہین عدالت کی سزا کاٹنے کے بعد نہال ہاشمی نے جو الفاظ استعمال کیے وہ انتہائی غیر مناسب تھے لیکن اس کے باوجود عدالت نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں معاف کردیا۔

اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ اس وقت عدالت میں ہم ثبوت کی بات کر رہے ہیں یہ تذکرہ آپ بعد میں کر لیجیے گا۔

دوران سماعت وکیل کامران مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ توہین عدالت کے نوٹس میں وجوہات کا تعین نہیں کیا گیا، 117 ٹی وی چینلز میں سے صرف نیو ٹی وی اور روز ٹی وی کی مانیٹرنگ کی گئی۔

انہوں نے کہا کہ دونوں ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی تقریر کا فوری نوٹس پیمرا نے بھی نہیں لیا، اس پر جسٹس گلزار نے کہا کہ عدالت نے پیمرا کو دیکھ کر کوئی فیصلہ نہیں کرنا، عدالت اپنے قانون کے تحت فیصلہ کرے گی۔

اس پر وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ اگر آپ اس کیس میں سزا دیں گے تو یہ کیس ساری عمر نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا جبکہ اگر آپ اس کیس میں بری کریں گے تو یہ ہمیشہ نظیر کے طور پر پیش ہوگا۔

کامران مرتضٰی نے کہا کہ یہ فوجداری مقدمہ ہے اس میں کڑیاں ملائی جاتی ہیں، ایک کڑی کے نہ ہونے سے شک کا فائدہ ملزم کو ہوتا ہے، شک کی موجودگی میں سزا ہونا انصاف کے برعکس ہے، اگر سزا ہوتی ہے تو اس کے دو حصے ہوں گے، پہلا یہ کہ میرے موکل کو جیل ہوسکتی ہے جبکہ دوسرا یہ کہ وہ پانچ سال کے لیے الیکشن سے نااہل ہو سکتے ہیں۔

طلال چوہدری کے وکیل کا کہنا تھا کہ 90 فیصد فوجداری مقدمات میں ناقص شواہد پر عدالت بریت دیتی ہے، اس پر جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیا آپ ان 10 فیصد میں آتے ہیں، جن کو سزا ہوتی ہے؟ جس پر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ میں کہوں گا کہ عدالت شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرے۔

اس دوران وکیل کامران مرتضیٰ نے کہا کہ فیصل رضا عابدی نے عدالت کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا، ایک حضرت نے بھی عدلیہ کے بارے میں ریمارکس دیے جبکہ فیض آباد دھرنے کے مقرر کی تقریریں سن کر انسان کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ عدالت تحمل کا مظاہرہ کرے، اس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ پڑھے لکھے شخص پر زیادہ ذمہ داری ہوتی ہے، طلال چوہدری نے کبھی معافی نہیں مانگی،ان کا مقدمہ عدالتی تحمل ہے۔

دوران سماعت وکیل استغاثہ نے کہا کہ توہین عدالت کے مواد پر کبھی اعتراض نہیں اٹھایا گیا، طلال چوہدری نے بیانات میں عدلیہ کو متنازع بنایا جبکہ طلال چوہدری نے اپنے بیانات سے کبھی انکار نہیں کیا۔

بعد ازاں عدالت نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا جو بعد میں سنایا جائے گا، اس موقع پر طلال چوہدری کے وکیل نے فیصلے کو انتخابات کے بعد تک ملتوی کرنے کی استدعا کی، جس پر جسٹس گلزار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے فیصلے کی تاریخ نہیں دی ہے۔

تاہم کیس کے فیصلے کے موقع پر طلال چوہدری کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی۔

مقدمے کا پس منظر

یاد رہے کہ طلال چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے جڑانوالہ میں جلسے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک وقت تھا جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، آج ہماری عدالت جو ایک اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے میں پی سی او ججز کی بھرمار ہے'۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میاں صاحب انہیں باہر پھینک دو، انہیں عدالت سے باہر پھینک دو، یہ انصاف نہیں دیں گے بلکہ اپنی نا انصافی جاری رکھیں گے'۔

خیال رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے یکم فروری کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 6 فروری 2018 کو طلال چوہدری کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مہلت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری نے عبوری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا

طلال چوہدری نے 24 فروری کو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں اپنا عبوری جواب جمع کرایا تھا۔

سپریم کورٹ نے 26 فروری کو وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے متعلق توہینِ عدالت ازخود نوٹس کیس میں وکیل کی عدم پیشی پر سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔

عدالت عظمیٰ نے 6 مارچ کو ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بیانات سے متعلق سی ڈی طلال چوہدری کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

14 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی۔ بعد ازاں 15 مارچ کو ان پر توہین عدالت مقدمے میں فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 21 مئی کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Rana ghulam mustafa Jul 11, 2018 06:08pm
Probably on Friday it will be announced!