کوئٹہ: قومی احتساب بیورو(نیب) کے چیئرمین جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا ہے کہ مجھے دکھ ہوتا ہے کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے والے جب کہیں جاتے ہیں تو ان پر پھول نچھاور کیے جاتے ہیں، یہ پھول نچھاور کرنے کی نہیں ندامت کی بات ہے۔ یہ ملک کی توہین ہے کہ آپ ایک کرپٹ شخص پر پھولوں کی بارش کریں۔

کوئٹہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ ملک کی توہین ہے کہ آپ ایک کرپٹ شخص پر پھولوں کی بارش کریں، ملک میں احتساب ہوگا تو سب کا ہوگا،ورنہ کسی کا نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہوگا کہ بات حوالدار، تھانیدار یا پٹواری سے شروع ہوگی، اب بات اوپر سے شروع ہوگی، ان بڑوں سے پوچھا جائے گا کہ آپ نے نیچے والوں کو اتنی ڈھیل کیوں دی کہ کرپشن کا پودا اب تناور درخت بن گیا ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان کے خلاف کرپشن کی تحققیات ہورہی ہے، باقی دو سابق وزرائے اعلیٰ کے خلاف تحقیقات الیکشن کے بعد ہوگی تاکہ یہ تاثر نہ قائم ہو کہ نیب سیاسی طور پر ہراساں کررہی ہے یا نیب کے کوئی انتقامی عزائم ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: چیف جسٹس، چیئرمین نیب نے انتخابات پر اثر انداز ہونے کا تاثر مسترد کردیا

ان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ نیب کی وجہ سے ملک کا نظام رک گیا ہے، اس سے بڑا الزام کوئی نہیں ہوگا، نیب کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہے، آخر کب تک ہم جانوروں کی طرح زندگی گزاریں گے، کیا وہ وقت نہیں آیا کہ ہم ملک کو درپیش سنگین مسائل کی بنیادی وجوہات کو جان لیں۔

چیئرمین نیب نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کی بیورو کریسی دبنگ طریقے سے کام کرے، کسی سے ڈرنے اور دبنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کرپشن ہمارے ملک کے لیے دیمک نہیں، کینسر ہے۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے مزید کہا کہ قدرت نے بلوچستان کو بے پناہ قیمتی معدنیات سے نوازا ہے، سینڈک اور ریکوڈک منصوبے اس کی چھوٹی سی مثال ہیں، لیکن ہمارے حکمرانوں نے اس حوالے سے کچھ نہیں کیا، نیب ان لوگوں سے ضرور پوچھے گا۔

چیئرمین نیب کا کہنا تھا کہ ملک میں ایک طرف ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ہیں جو جسم اور روح کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے تگ و دو میں لگے رہتے ہیں، انہیں معلوم نہیں ہوتا کہ رات کو کھانا بھی ملے گا یا نہیں۔

مزید پڑھیں: چیئرمین نیب کے خلاف توہین عدالت نوٹس کی درخواست دائر

ان کا مزید کہنا تھا کہ جبکہ دوسری طرف ایسے لوگ ہیں جن کے پاس پہلے چھ مرلے کا مکان نہیں تھا، اب ان کے کھربوں ڈالرز بیرون ملک میں پڑے ہیں، آج دبئی اور دیگر ممالک میں ان کی جائیدادیں، اگر ان لوگوں سے یہ پوچھا جائے کہ انہوں نے یہ جائیدادیں اور بیک بیلنس کیسے بنالیا تو اس میں کیا برائی ہے، انہیں اس کا جواب دینا ہوگا کیونکہ ملک 90 ارب ڈالر کا مقروض ایسے نہیں ہوگیا۔

جسٹس (ر) جاوید اقبال نے کہا کہ میں آپ کو چھوٹی سی مثال دے رہا ہوں،صوبے کا نام نہیں لے رہا، اس صوبے کے کرتا دھرتا نے ایک کنسلٹینسی فرم کو ایک منصوبے کے حوالے سے فزیبلٹی رپورٹ بنانے کا کہا اور اس فرم کو پہلی قسط ڈھائی ارب روپے ادا کی، جب اس فرم کی رپورٹ آئی تو اسے ضائع کردیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ پھر دوسری فرم سے رابطہ کیا گیا اور اسے دو ارب روپے اداکیے گئے اور اس رپورٹ پر بھی عمل نہیں ہوا۔ اگر نیب اس صوبے کے کرتا دھرتاؤں سے اس حوالے سے پوچھ گچھ کرے تو اس میں کون سا گناہ ہے اور اگر اسے گناہ سمجھا جاتا ہے تو میں اور میری ٹیم یہ گناہ کرتے رہیں گے۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Jul 11, 2018 11:32pm
اگر ایک شخص پورے سو سال ایک ایک لاکھ روپے روزانہ خرچ کرے تو وہ 3 ارب 65 کروڑ روپے اس دوران خرچ کرے گا، ساڑھے چار ارب روپے صرف 2 اداروں پر ضائع کرنے والوں سے ضرور تحقیقات ہونی چاہیے۔ یہ جو اربوں ڈالر کا قرض ہوگیا ہے اس کو عوام ہی ادا کرینگے۔