سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا کہنا ہے کہ منی لانڈرنگ کیس میں انہیں نوٹس ڈیڑھ کروڑ کا موصول ہوا لیکن ڈھول 40 ارب روپے کا بجایا جارہا ہے۔

نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے کہا کہ انہوں نے پہلے بھی ایسے کیسز کا سامنا کیا اب بھی کریں گے، جبکہ اس طرح کے کیسز سے انہیں فرق نہیں پڑتا۔

انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ’ایسا کونسا کیس ہے جو میرے خلاف نہ بنایا گیا ہو، میری ٹانگوں پر بم باندھا گیا لیکن میرے خلاف کچھ ثابت نہیں ہوا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’میرے خلاف بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ نجف مرزا ہیں، کسی بھی جے آئی ٹی میں فوج کے نمائندے کو نہیں ہونا چاہیے تاہم میرے خلاف جتنی بھی جے آئی ٹی بنیں ان میں فوج کے نمائندے شامل تھے، جبکہ میرے خلاف جو کیس بنایا جارہا ہے اس کا جواب دوں گا۔‘

سابق صدر کے مبینہ فرنٹ مین اور منی لانڈرنگ و جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار حسین لوائی سے متعلق آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’حسین لوائی بزرگ آدمی ہیں، ان کو ٹارچر کیا جارہا ہے جس کی مذمت کرتا ہوں۔‘

واضح رہے کہ بدھ کے روز کراچی کی مقامی عدالت نے حسین لوائی کے جسمانی ریمانڈ میں 14 جولائی تک توسیع کرتے ہوئے انہیں وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کردیا تھا۔

ایف آئی اے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں: سابق بینکر حسین لوائی سے ایف آئی اے کی تفتیش

بعد ازاں 7 جولائی کو حسین لوائی اور طحٰہ رضا کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں 11 جولائی تک ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔

حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ہے کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

آصف زرداری نے کہا کہ ’جو بھی ہونے جا رہا ہے اس کو ہم نے جمہوری طریقے سے روکنا ہے، یہ انتخابات کا وقت ہے سیاستدانوں کے احتساب کا وقت نہیں، جبکہ ہم نے حکومت میں ہوتے ہوئے متعدد مقدمات کا سامنا کیا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’الیکشن کا بائیکاٹ مسئلے کا حل نہیں، ہم الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کر رہے، جبکہ جس نے حکومت بنانی ہے اسے پیپلز پارٹی سے بات کرنا پڑے گی۔‘

تبصرے (0) بند ہیں