اسلام آباد: وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سابق وفاقی وزیر خزانہ اور مسلم لیگ (ن) کے رہنما اسحٰق ڈار کی بیرون ملک گرفتاری کے لیے ریڈ وارنٹ جاری کردیئے جس کے بعد انہیں انٹرپول کے ذریعے وطن واپس لایا جائے گا۔

واضح رہے کہ 9 جولائی کو چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے چیئرمین پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی تعیناتی سے متعلق کیس کی سماعت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کو مزید 3 روز کی مہلت دیتے ہوئے جمعرات (12 جولائی) کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دے دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: اسحٰق ڈار کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے 3 روز کی آخری مہلت

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے اسحٰق ڈار کی وطن واپسی سے متعلق کیس کی سماعت کی، اس سلسلے میں اٹارنی جنرل عدالت میں پیش ہوئے۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ اسحٰق ڈار کے ریڈ وارنٹ جاری کر دیئے گئے ہیں، وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد ایف آئی اے نے ریڈ وارنٹ جاری کیے.

جس کے بعد ایف آئی اے نے وزارت داخلہ کی منظوری کے بعد انٹرپول کو درخواست کردی ہے۔

دوران سماعت وزارت داخلہ کی جانب سے اسحٰق ڈار کی واپسی سے متعلق جواب بھی سپریم کورٹ میں جمع کرایا گیا۔

جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل نے استفسار کیا کہ اسحٰق ڈار کی بیرون ملک جائیداد ضبط کرنے کے حوالے سے کیا کیا؟ اس پر انہوں نے بتایا کہ جائیداد ضبطگی کی درخواست بھی ریڈ وارنٹ کے ساتھ لگا دی ہے۔

مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کی سینیٹ رکنیت سے معطلی کا نوٹیفکیشن جاری

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ‘اسحٰق ڈار عدالت کے بلانے پر نہیں آئے، سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار عدالت کی بے توقیری کررہے ہیں اور وہ نوٹس گھر کے باہر چسپاں کرنے کے باوجود پیش نہیں ہو ئے‘۔

خیال رہے کہ اسحٰق ڈار پاناما پیپرز لیکس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے چند ماہ بعد ہی علاج کی غرض سے لندن روانہ ہو گئے تھے جس کے بعد وطن واپس نہیں آئے۔

اسحٰق ڈار نیب ریفرنس میں بھی اشتہاری

اس سے قبل سپریم کورٹ نے 28 جولائی 2017 کو پاناما پیپرز کیس میں اپنا حتمی فیصلہ سناتے ہوئے نیب کو اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے رکھنے کے حوالے سے ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت جاری کی تھی۔

جس کے بعد الیکشن کمیشن نے 29 جولائی کو سپریم کورٹ کے احکامات کے پیش نظر اسحٰق ڈار کی سینیٹ کی رکنیت معطلی کا نوٹی فکیشن جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز لیکس کیس کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) نے اسحٰق ڈار کے خلاف 20 اگست 2017 سے تحقیقات کا آغاز کیا، جس میں حکام نے ان کی آمدن میں اضافے کے علاوہ فلیگ شپ انویسٹمنٹ، ہارٹ سٹون پراپرٹیز، کیو ہولڈنگز، کیونٹ ایٹن پلیس، کیونٹ سولین لمیٹڈ، کیونٹ لمیٹڈ، فلیگ شپ سیکیورٹیز لمیٹڈ، کومبر انکارپوریشن اور کیپیٹل ایف زیڈ ای سمیت 16 اثاثہ جات کی تفتیش کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: نیب کی شریف خاندان،اسحٰق ڈار کے اثاثے منجمد کرنے کی سفارش

اسحٰق ڈار کے خلاف دائر ریفرنس میں دفعہ 14 سی لگائی گئی، یہ دفعہ آمدن سے زائد اثاثے رکھنے سے متعلق ہے، جس کی تصدیق ہونے کے بعد 14 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت نے آمدنی سے زائد اثاثے رکھنے کے الزام میں دائر نیب ریفرنس کے سلسلے میں سابق وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار پر فردِ جرم عائد کی لیکن انہوں صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔

دوسری جانب سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے 22 ستمبر 2017 کو اسحٰق ڈار سے وزارت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہیں ملک کو مزید بدنام کرنے سے قبل اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دینا چاہیے۔

واضح رہے کہ احتساب عدالت نے 21 نومبر 2017 کو نیب کی جانب سے دائر آمدن سے زائد اثاثہ جات ریفرنس میں اسحٰق ڈار کو مفرور قرار دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں