راولپنڈی: احتساب عدالت کے ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کی روشنی میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے گرفتار کے گئے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کا اڈیالہ جیل میں میڈیکل چیک اپ مکمل کرلیا گیا۔

جیل ذرائع کے مطابق میڈیکل بورڈ نے سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کو اڈیالہ جیل میں رہنے کے لیے فٹ قرار دے دیا اور ساتھ ہی مسلم لیگ (ن) کے دونوں رہنماؤں کی مکمل میڈیکل ہسٹری مرتب کرلی۔

ذرائع نے ڈان نیوز کو بتایا کہ نواز شریف کو اڈیالہ جیل میں ہائی سیکیورٹی زون کے کمرے میں رکھا گیا جبکہ ان کی صاحبزادی مریم نواز کو خواتین بیرکس میں منتقل کیا گیا۔

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے اڈیالہ جیل میں قید کی پہلی رات کاٹ لی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف، مریم نواز گرفتاری کے بعد اڈیالہ جیل منتقل

جیل ذرائع کے مطابق نواز شریف اور مریم نواز سے ملاقات پر کوئی پابندی نہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی مقامی قیادت اور کارکنوں میں سے کوئی بھی اڈیالہ جیل نہیں آیا تاہم نواز شریف کے وکلاء کی جیل آمد متوقع ہے۔

جیل ذرائع نے بتایا کہ نواز شریف کو جیل میں اے یا بی کٹیگری چیف سیکریٹری کے حکم پر دی جائے گی جبکہ جیل حکام نے نواز شریف کو بی کلاس کے حصول کے لیے ایس او پیز سے بھی آگاہ کردیا۔

حکام نے بتایا کہ جیل رول کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف کو جیل میں بی کیٹیگری الاٹ کی جائے گی اور نواز شریف کرسی میز سے لے کر روم کولر تک اپنے پیسوں سے خریدے گے۔

اس کے علاوہ نواز شریف کو جیل میں ائیر کنڈیشنڈ لگانے کی اجازت نہیں ہوگی اور وہ کھانا بھی جیل کے اندر بنائیں گے۔

جیل حکام نے مزید بتایا کہ مریم نواز کو بھی جیل میں بی کیٹیگری الاٹ کرنے کے حوالے سے 4 نکاتی ایس او پی پر عمل کرنا ہوگا جبکہ ان کو اس حوالے سے این ٹی این نمبر سمیت دیگر کوائف مکمل کرنے ہوں گے۔

جیل حکام نے بتایا کہ مریم نواز اگر سالانہ 6 لاکھ روپے ٹیکس ادا کرتی رہی ہیں تو ان کو بی کیٹیگری الاٹ ہو سکتی ہے۔

بعد ازاں نواز شریف کا پرسنل سیکیورٹی اسٹاف لاہور سے اڈیالہ جیل پہنچا، جو نواز شریف اور مریم نواز کے لیے ذاتی استعمال کی اشیاء لے کر آیا تھا۔

تاہم جیل حکام نے نواز شریف کے ذاتی اسٹاف کو جانچ پڑتال کے لیے روکا لیا جبکہ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کے لیے لائے گئے پکوان بھی روک لیے گئے۔

جیل ذرائع نے بتایا کہ جیل مینوئل کے مطابق نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو باہر سے پکا ہوا کھانا فراہم نہیں کیا جاسکتا۔

احتساب عدالت سے قید اور جرمانے کی سزا

واضح رہے کہ گزشتہ روز مسلم لیگ (ن) کے دونوں رہنما 6 جولائی کو ایون فیلڈ ریفرنس میں احتساب عدالت کی جانب سے سزا سنائے جانے کے بعد گرفتاری دینے کے لیے پاکستان آئے تھے، جس میں آمدنی سے زائد اثاثے بنانے پر مجرم ٹھہرائے جانے والے سابق وزیراعظم نواز شریف کو 10 سال مریم نواز کو 7 سات سال جبکہ ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کو ایک سال کی سزا دی گئی تھی۔

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف پر 80 لاکھ پاؤنڈ (ایک ارب 10 کروڑ روپے سے زائد) اور مریم نواز پر 20 لاکھ پاؤنڈ (30 کروڑ روپے سے زائد) جرمانہ بھی عائد کیا۔

اس کے علاوہ احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے لندن میں قائم ایون پراپرٹی ضبط کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کو 10، مریم نواز کو 7 سال قید بامشقت

احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے مطابق نواز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات پر مریم نواز کو والد کے اس جرم میں ساتھ دینے پر قید اور جرمانے کی سزائیں سنائی گئیں جبکہ نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایون فیلڈ ریفرنس سے متعلق تحقیقات میں نیب کے ساتھ تعاون نہ کرنے پر علیحدہ ایک، ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

اس طرح مجموعی طور پر نواز شریف کو 11 اور مریم کو 8 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

فیصلہ سنائے جانے کے وقت والد اور بیٹی دونوں کلثوم نواز کی عیادت کے لیے لندن میں موجود تھے جس کے بعد انہوں نے سزا کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان واپس آنے کا اعلان کیا تھا۔

خیال رہے کہ مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) محمد صفدر پہلے ہی گرفتاری دے چکے ہیں۔

فیصلہ آنے کے بعد ایک پریس کانفرنس میں نواز شریف اور مریم نواز نے بھی وطن واپس آکر سزا کا سامنا کرنے کا اعلان کیا تھا، اس ضمن میں نواز شریف نے عدالتی فیصلے پر تنقید بھی کی جس میں ان کی صاحبزادی کو 7 سال قید کی سزا سنائی گئی، نواز شریف کا کہنا تھا کہ جنہوں نے فیصلہ سنایا انہوں نے اپنی نفرت میں اس بات کا بھی خیال نہیں رکھا کہ پاکستان میں بیٹی کا کیا مقام ہے۔

نواز اور مریم کی لاہور آمد و گرفتاری

گزشتہ روز نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کو نیب کی ٹیم نے لاہور ایئرپورٹ سے حراست میں لے کر اسلام آباد پہنچایا تھا، جہاں سے دونوں رہنماؤں کو اڈیالہ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

دونوں رہنما نجی ایئرلائن اتحاد کی فلائٹ نمبر ای وائے 243 کے ذریعے لندن سے براستہ ابوظہبی، لاہور کے علامہ اقبال انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر پہنچے تھے۔

طیارے کے اترتے ہی 3 خواتین اہلکاروں سمیت نیب کی 16 رکنی ٹیم نے قانونی کارروائی شروع کی تھی، اس موقع پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے 3 اہلکار بھی جہاز کے اندر پہنچے اور انہوں نے نواز شریف اور مریم نواز کے پاسپورٹس تحویل میں لے کر ان کی امیگریشن جہاز کے اندر ہی مکمل کی۔

مزید پڑھیں: ایون فیلڈ ریفرنس کے مجرم کیپٹن (ر) صفدر اڈیالہ جیل منتقل

تمام قانونی کارروائی مکمل کرنے کے بعد دونوں کو سیکیورٹی اہلکاروں کے حصار میں حراست میں لے لیا گیا، جس کے بعد خصوصی طیارہ انہیں لے کر اسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ کی جانب روانہ ہوا، خصوصی چارٹرڈ طیارہ تقریباً 45 منٹ کی پرواز کے بعد نواز شریف اور مریم نواز کو لے کر اسلام آباد ایئرپورٹ پہنچا، جہاں ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) نیب راولپنڈی عرفان نعیم منگی بھی موجود تھے۔

نواز شریف اور مریم نواز کی گرفتاری کے حوالے سے چیف کمشنر اسلام آباد نے سہالہ پولیس ٹریننگ کالج ریسٹ ہاؤس کو اگلے احکامات تک سب جیل قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس کے مطابق دونوں مجرمان کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جانا تھا۔

تاہم کچھ دیر بعد چیف کمشنر نے دوسرا نوٹیفکیشن جاری کیا جس کے مطابق صرف مریم نواز کو سہالہ ریسٹ ہاؤس منتقل کیا جانا تھا، جس کے باہر اسلام آباد پولیس کے اہلکار سیکیورٹی کے فرائض انجام دیں گے۔

تاہم فیصلے میں کچھ دیر بعد ایک مرتبہ پھر تبدیلی کی گئی اور نواز شریف اور مریم نواز دونوں کو اسلام آباد ایئرپورٹ سے الگ، الگ اسکواڈ کے ذریعے اڈیالہ جیل منتقل کیا گیا، جہاں دونوں کا مجسٹریٹ اور سینئر پولیس حکام کی موجودگی میں طبی معائنہ ہوا۔

ایون فیلڈ ریفرنس کا پس منظر

یاد رہے کہ گزشتہ برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ نے پاناما پیپرز کیس کی تحقیقات کرنے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ کی روشنی میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا تھا جس کے ساتھ ہی وہ وزارتِ عظمیٰ کے عہدے سے بھی نااہل قرار پائے تھے۔

مذکورہ فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ نے نیب کو نواز شریف، ان کے صاحبزادے حسن نواز اور حسین نواز، صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کے خلاف ریفرنسز دائر کرنے کا حکم دیا تھا، جبکہ ان ریفرنسز پر 6 ماہ میں فیصلہ سنانے کا بھی حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: کیپٹن (ر) محمد صفدر نے نیب کو گرفتاری دے دی

بعد ازاں نیب کی جانب سے نوازشریف اور ان کے بچوں کے خلاف 8ستمبر2017 کوعبوری ریفرنس دائرکیا گیا تھا۔

ایون فیلڈ یفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، مریم نواز، حسن اورحسین نوازکے علاوہ کیپٹن ریٹائرڈ صفدرملزم نامزد تھے، تاہم عدالت نےعدم حاضری کی بنا پر نواز شریف کے صاحبزادے حسن اور حسین نواز کو اشتہاری قرار دیا تھا۔

9 اکتوبر کو ہونے والی سماعت کے دوران احتساب عدالت نے 50 لاکھ روپے کے علیحدہ علیحدہ ضمانتی مچلکے جمع کرانے کے بعد مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کی ضمانت منظور کر لی تھی جبکہ عدالت نے حسن اور حسین نواز کا مقدمہ دیگر ملزمان سے الگ کرکے انہیں اشتہاری قرار دیتے ہوئے ان کے دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر دیئے تھے۔

مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پر 19 اکتوبر 2017 کو براہ راست فرد جرم عائد کی گئی تھی جبکہ نوازشریف کی عدم موجودگی کی بنا پران کے نمائندے ظافرخان کے ذریعے فردجرم عائد کی گئی تاہم نواز شریف 26 ستمبر 2017 کو پہلی بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوگئے تھے۔

26 اکتوبر2017 کو نوازشریف کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوئے تھے،3 نومبر 2017 کو پہلی بار نوازشریف، مریم نواز اور کیپٹن(ر)صفدر اکٹھے عدالت میں پیش ہوئے اور 8 نومبر2017 کو پیشی کے موقع پر نوازشریف پربراہ راست فرد جرم عائد کی گئی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف 25 جولائی سے پہلے پاکستان آئیں گے،مسلم لیگ (ن)

سپریم کورٹ کی جانب سے ان ریفرنس کا فیصلہ 6 ماہ میں کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ مدت رواں برس مارچ میں ختم ہونی تھی تاہم سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کی درخواست پر شریف خاندان کے خلاف زیرِ سماعت نیب ریفرنسز کی ٹرائل کی مدت میں 2 ماہ تک کی توسیع کردی گئی تھی۔

نیب ریفرنسز کی توسیع شدہ مدت مئی میں اختتام پذیر ہوئی تاہم احتساب عدالت کی جانب سے سپریم کورٹ میں ٹرائل کی مدت میں مزید توسیع کے لیے درخواست دائر کی گئی جسے عدالتِ عظمیٰ نے قبول کرلیا اور ٹرائل کی مدت میں 9 جون تک توسیع کی۔

سپریم کورٹ کی توسیع شدہ مدت جون میں اختتام ہونے والی تھی، تاہم احتساب عدالت نے ٹرائل کی مدت میں توسیع کا فیصلہ کرتے ہوئے 4 جون کو ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ میں درخواست دائر کی گئی تھی۔

10 جون کو سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا کہ شریف خاندان کے خلاف ریفرنسز کا فیصلہ ایک ماہ میں سنایا جائے۔

11 جون 2018 کو کیس میں نیا موڑ آیا جب حتمی دلائل کی تاریخ سے ایک دن پہلے خواجہ حارث کیس سے الگ ہوگئے جس پر نوازشریف کی طرف سے ایڈووکیٹ جہانگیر جدون نے وکالت نامہ جمع کروایا تاہم 19جون کوخواجہ حارث احتساب عدالت پہنچے اوردست برداری کی درخواست واپس لے لی۔

یہ بھی یاد رہے کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں مجموعی طور پر18 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے گئے جن میں پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء بھی شامل تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں