کراچی: انسداد دہشت گردی عدالت میں زیر سماعت نقیب اللہ قتل کیس اہم موڑ اختیار کرگیا ہے اور مقتول کے والد محمد خان نے عدالت کے جج پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے مقدمے کو کسی اور عدالت منتقل کرنے کے لیے درخواست سندھ ہائی کورٹ میں جمع کرادی۔

عدالت عالیہ میں وکیل کے توسط سے دائر کی گئی درخواست میں محمد خان نے موقف اختیار کیا کہ سابق سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کی گرفتاری سے اب تک ہماری کسی درخواست کو نہیں سنا گیا۔

درخواست میں کہا گیا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالت کی جج خالدہ یاسین نے درخواست کے باوجود راؤ انوار کے پروٹوکول پر بھی نوٹس نہیں لیا جبکہ گواہوں کو دی جانے والی دھمکیوں سے متعلق درخواست پر بھی فیصلہ نہیں لیاگیا۔

عدالت عالیہ میں دائر درخواست میں کہا گیا کہ راؤ انوار کی ضمانت کی درخواست میں تفتیشی افسر کو سنے بغیر فیصلہ کیا گیا، لہٰذا مقدمے کو کسی اور عدالت منتقل کیا جائے۔

مزید پڑھیں: نقیب اللہ قتل کیس میں راؤ انوار کی ضمانت منظور

علاوہ ازیں مقتول نقیب اللہ کے والد کے وکیل نے انسداد دہشت گردی عدالت کو مذکورہ درخواست کے حوالے سے آگاہ کیا اور عدالت سے ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے تک کیس کی سماعت ملتوی کرنے کی درخواست کی۔

دوسری جانب انسداد دہشت گردی کی عدالت میں نقیب اللہ قتل کیس میں ڈی ایس پی قمر سمیت 4 ملزمان کی درخواست ضمانت پر سماعت ہوئی، اس دوران راؤ انوار سمیت دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔

سماعت کے دوران ملزمان کے وکلاء نے دلائل مکمل کیے جبکہ آئندہ سماعت پر استغاثہ کی جانب سے دلائل دیے جائیں گے۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت کل (17 جولائی) تک ملتوی کردی۔

زبردستی مقدمے میں ملوث کیا گیا، راؤ انوار

عدالت میں پیشی کے بعد نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم اور انسداد دہشت گردی عدالت سے ضمانت حاصل کرنے والے راؤ انوار نے میڈیا سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ مدعی پارٹی نے کیس کیا ہے تو وہ کیس لڑنے پر زور دیں، فالتو باتوں سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے مقدمہ لڑنے کے لیے قانونی طور پر زور دیا ہے، آج دیگر ملزمان کے وکلاء نے بھی دلائل دیے ہیں اور ساتھ ہی دعویٰ کیا کہ کسی ملزم کے خلاف کوئی بھی ثبوت موجود نہیں۔

راؤ انوار کا کہنا تھا کہ ہم سب کو زبردستی مقدمے میں ملوث کیا گیا، گواہ ابھی عدالت نہیں آئے تو ان کو ڈرانا دھمکانا کیسے ممکن ہے، اب تک پولیس نے جن گواہان کے بیانات ریکارڈ کیے ان میں تضاد موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارا پورا کیس ہی ان گواہوں پر انحصار کر رہا ہے لیکن گواہان کے بیانات میں تضاد ہے، اس سے حقیقت واضح ہو رہی ہے۔

علاوہ ازیں مدعی مقدمہ کے وکیل صلاح الدین پہنور ایڈووکیٹ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے آج کی کارروائی کا بائیکاٹ کیا ہے، ہماری تمام تر درخواستیں اور اعتراضات یکسر مسترد کردیئے گئے۔

انہوں نے کہا کہ راؤ انوار کو بغیر ہھتکڑی کے لانے اور ملزمان والی اورنج جیکٹ نہ پہنانے پر اعتراض کیے جبکہ تفتیشی افسر کو سنے بغیر جج نے راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ سنادیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت میں انسداد دہشت گردی عدالت نے نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے ملزم کو 10 لاکھ روپے کے مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

نقیب اللہ محسود کا قتل

خیال رہے کہ جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ کو رواں سال جنوری میں سابق ایس ایس پی راؤ انوار کی جانب سے مبینہ پولیس مقابلے میں قتل کردیا گیا تھا۔

پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مقابلے کے دوران 4 دہشت گرد مارے گئے ہیں، جن کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تھا۔

ایس ایس پی ملیر راؤ انوار کی جانب سے اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ’نقیب اللہ کا قتل راؤ انوار کے اعلان کے 2 گھنٹے بعد کیا گیا‘

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ مقتول حقیقت میں ایک دکان کا مالک تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

نقیب اللہ کے قریبی عزیز نے بتایا تھا کہ رواں ماہ کے آغاز میں نقیب اللہ کو سہراب گوٹھ پر واقع کپڑوں کی دکان سے سادہ لباس افراد مبینہ طور پر اٹھا کر لے گئے تھے جبکہ 13 جنوری کو پتہ چلا تھا کہ اسے مقابلے میں قتل کردیا گیا۔

بعد ازاں 19 جنوری کو چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے کراچی میں مبینہ طور پر جعلی پولیس مقابلے قتل کیے جانے والے نقیب اللہ محسود پر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں جن میں سپریم کورٹ نے راؤ انوار کو پولیس حکام کے پیش ہونے کا موقع بھی دیا تاہم 21 مارچ 2018 کو ایس ایس پی ملیر راؤ انوار عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے تھے اور سماعت کے بعد انہیں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں