اسلام آباد: پاکستان نے عالمی عدالت میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کے کیس میں اپنا تحریری جواب جمع کرا دیا جس میں بھارت کے تمام اعتراضات کے جوابات دیئے گئے ہیں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر فیصل کے مطابق پاکستان کی جانب سے دی ہیگ میں واقع عالمی عدالت میں جمع کرایا گیا جواب 400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے۔

پاکستان کی جانب سے جواب دفتر خارجہ میں ڈائریکٹر انڈیا کے عہدے پر فائز ڈاکٹر فاریحہ بگٹی نے جمع کرایا، اس موقع پر دی ہیگ میں پاکستانی سفارتخانے کے افسر وسیم شہزاد بھی ان کے ہمراہ تھے۔

یہ پاکستان کی جانب سے جواب الجواب میں پہلا جبکہ کلبھوشن کیس میں عالمی عدالت میں جمع کرائے گئے جوابات میں مجموعی طور پر دوسرا جواب ہے۔

پاکستانی جواب اٹارنی جنرل کی سربراہی میں ماہرین کی ٹیم نے مرتب کیا ہے۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کیس: پاکستان جواب الجواب 17 جولائی تک جمع کرائے گا

ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے جواب میں بھارتی سوالات پر تفصیل سے جواب دیا گیا ہے اور پاکستان نے اپنے جواب میں بھارت کے تمام اعتراضات کے جوابات دیئے ہیں۔

اس سے قبل پاکستان نے کلبھوشن یادیو کے کیس میں اپنا جواب 13 دسمبر 2017 کو جمع کرایا تھا۔

کلبھوشن کی گرفتاری و کیس

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ اسے ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو کیس:پاکستان نے عالمی عدالت میں جواب جمع کرادیا

بعد ازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنانے کا اعلان کیا تھا، جس کی توثیق رواں برس 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

اس کے بعد بھارت کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں تحریری طور پر جمع کرائی گئی درخواست میں پاکستان پر کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی نہ دینے پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

اس کے جواب پر پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں جمع کرائے گئے جواب میں کہا تھا کہ قونصلر تعلقات 1963 کے ویانا کنونشن صرف قانونی طور پر آئے لوگوں پر لاگو ہوتا ہے اور یہ خفیہ آپریشن کے لوگوں پر لاگو نہیں ہوتا۔

پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو حاضر سروس افسر تھا اور وہ پاکستان میں جاسوسی کرنے اور ایک خصوصی مشن پر بھیجا گیا تھا۔

عالمی عدالت انصاف میں پاکستان کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ بھارت کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ نیوی کا ایک حاضر سروس افسر کیوں ’را‘ کے لیے کام کر رہا تھا اور وہ مسلم نام سے پاکستان کا سفر کیوں کر رہا تھا۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن یادیو کون ہے؟

پاکستان کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب میں کہا گیا تھا کہ ایک ایسا ملک جس کا دامن صاف ہو وہی عالمی عدالت انصاف سے درخواست کرسکتا ہے کہ وہ اس معاملے پر دو ممالک کے درمیان مداخلت کرے لیکن بھارت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں اور وہ کشمیر میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل نہیں کر رہا اور پر امن کشمیریوں پر پیلٹ گن کا استعمال کررہا۔

آئی سی جے میں پاکستان کی جانب سے اعتراض اٹھایا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو ایک جعلی شناخت کے ذریعے پاکستان میں بھیجا گیا اور وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث رہا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں