اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر سے متعلق اقدام اٹھانے کے بعد پاکستان انجینئرنگ کونسل (پی ای سی) نے اہل انجینئرز کی تعیناتی کو یقینی بنانے کے لیے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا۔

پی ای سی کے چیئرمین انجینئر جاوید سلیم قریشی نے سینئر کونسل ڈاکٹر طارق حسن کے ذریعے پٹیشن دائر کی جس میں دیگر حکومتی اداروں اطلاعات، توانائی، ہاؤسنگ اینڈ ورکس، ریلوے، پانی اور قدرتی وسائل، ایویشن، ڈیفینس پروڈکشن، انڈسٹری اینڈ پروڈکشن، اطلاعات و نشریات، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میری ٹائم امور، پیٹرولیم اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بیوروکریسی: خدمت عوام کی یا اپنی؟

پی ای سی کی جانب سے دائر پٹیشن میں حکومت سے درخواست کی گئی کہ پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) اور دیامر بھاشا اور مہمند ڈیم جیسے منصوبوں میں پی ای سی کی خدمات کو شامل کیا جائے تاکہ ادارہ فعال ہو اور اقتصادی، معاشی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکے جیسا کہ پی ای سی ایکٹ کا مینڈیٹ ہے۔

واضح رہے کہ پی ای سی میں تقریباً 2 لاکھ 40 ہزار انجینئرز رجسٹر ہیں۔

پی ای سی نے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو ڈیم کی تعمیر کے لیے درکار افرادی قوت کی تقرری کے لیے پیشہ ورانہ قابلیت کا جائزہ لینا شروع کردے اور اس امر کو یقینی بنائے کہ انجیئرنگ سے متعلق تمام ملازمتوں میں قابل انجینئرز کو کام کرنے کا موقع ملے۔

مزید پڑھیں: ‘بیوروکریسی بجٹ سفارشارت کو خاطر میں نہیں لارہی‘

پی ای سی نے سپریم کورٹ کی توجہ دلائی کہ ریلوے ڈویژن کے علاوہ وفاقی حکومت میں کوئی 22 گریڈ کا انجینئر نہیں جبکہ تمام انجینئرز 21 گریڈ کی پوسٹ پر تعینات ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حقیقت کے باوجود وفاقی حکومت کے 5 ڈویژن خالصاً انجینئرنگ سے متعلق امور کا کام کرتے ہیں جس میں ہاؤسنگ، پانی کے وسائل، توانائی، کمیونیکیشن اور ریلوے شامل ہیں اور دیگر 8 ڈویژن میں بھی انجینئرنگ امور نمٹائے جاتے ہیں۔

اس حوالے سے مزید انکشاف کیا گیا کہ حکومتی ڈویژن میں ہزاروں کی تعداد میں جونیئر انجینئرز بھرتی کیے گئے جبکہ تمام ڈویژن میں سینئر منیجمنٹ کی پوسٹ بیوروکریٹس نے پاکستان ایڈمنسٹریٹر سروس گروپ کے ذریعے حاصل کی۔

مزید پڑھیں: ’پنجاب میں بیوروکریسی سے بغاوت کرائی جارہی ہے‘

پٹیشن میں بتایا گیا کہ ’سیاسی بنیادوں پر بھرتی کیے گئے افراد پیشہ ورانہ صلاحیت اور قابلیت سے ناواقف ہیں‘۔

پی ای سی کا کہنا تھا کہ ’بدترین گورننس کے باعث ٹیکنوکریٹس اور بیوروکریٹس براجمان ہیں جس کے نتیجے میں پانی، توانائی، ہاؤسنگ اور دیگر مسائل مسقتل بنیادوں پر پاکستان کی جڑ میں بیٹھ گئے ہیں۔

اس حوالے سے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی گئی کہ مسائل کے حل کے لیے حکومت کی جانب سے انجینئرز پر مشتمل ایک علیحدہ پیشہ ورانہ صلاحیت کا حامل گروپ تشکیل دیا جائے جس طرح پی اے ایس ہے، جسے ماضی میں ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ (ڈی ایم جی) کے طور پر جانا جاتا تھا۔


یہ خبر 19 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (2) بند ہیں

Hawris Ahmad Jul 19, 2018 02:18pm
technical departments should be run by technical experts i.e. engineers/scientists ,good move by PEC chairman.
KHAN Jul 19, 2018 06:13pm
اب پاکستان میں ہر ایک کو اپنے حقوق اور ملک کی خدمت کے لیے خود آواز اٹھانا ہوگی ورنہ مراعات یافتہ طبقہ کیمشن لے لے کر ہمیشہ کی طرح ملک ہڑپ کرتا رہے گا۔ جیسے سندھ میں تمام متعلقہ افسران، اداروں کی منظوری سے ایک سولر بلب 2 لاکھ روپے کا خرچ ظاہر کرکے لگایا گیا حالانکہ مارکیٹ میں بہت ہی کم قیمت پر دستیاب ہے۔