ریاستِ اسرائیل کے قیام سے اب تک صہیونی آبادکاروں نے فلسطینی عرب شناخت کا نام و نشان مکمل طور پر مٹا دینے کی کوشش کی ہے۔

ناانصافی کے اس طویل سلسلے میں تازہ ترین اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے جاری کیا گیا ایک قانون ہے جو اسرائیل کو 'یہودیوں کا وطن' قرار دیتا ہے۔

ویسے تو یہ قومی شناخت کا ایک معصومانہ سا اعلان تصور کیا جاسکتا ہے مگر اس قانون کو قریب سے دیکھنے پر معلوم ہوتا ہے کہ یہ نہایت گھناؤنی قانون سازی ہے۔

مثال کے طور پر قانون کہتا ہے کہ اسرائیل کے اندر قومی خود ارادیت کا حق ’صرف یہودیوں کے لیے مخصوص ہے‘۔ یروشلم کی اسرائیل کے ’متحد و مکمل‘ دارالحکومت کے طور پر حیثیت پر زور دیا گیا ہے جو کہ بین الاقوامی رائے کے منہ پر طمانچہ ہے، جبکہ یہودی آبادکاری کو ’قومی اہمیت‘ کی حامل کے طور پر دیکھا گیا ہے۔

پڑھیے: اسرائیل کو ’یہودی ریاست‘ قرار دینے کا متنازع بل منظور

اس کے علاوہ عبرانی کے مقابلے میں عربی کے مرتبے کو گرا دیا گیا ہے۔ چنانچہ یہ قابلِ فہم ہے کہ کیوں اسرائیل میں رہنے والے عربوں، فلسطینیوں اور صحیح الدماغ اسرائیلیوں نے اس قانون پر تنقید کی ہے۔

پارلیمان کے عرب ارکان نے اس قانون کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا جب کہ پی ایل او کے رہنما صیب اریکات نے اس قانون کو ایک ’خطرناک اور نسل پرست قانون‘ قرار دیا جو کہ ’تفریق کو قانونی شکل‘ دیتا ہے۔

مگر اسرائیل کی دائیں بازو کی حکومت سے ایسا اقدام غیر متوقع نہیں تھا، جو فلسطینی عرب شناخت کو ختم کر دینے کے درپے ہے۔

قانون کی منظوری کو تاریخی نکتہ نظر سے دیکھیں تو یہ صہیونیوں کی جانب سے فلسطینیوں سے ان کی زمین، عزت اور ان کے جینے کا حق چھین لینے کی لاتعداد کوششوں میں سے ایک ہے۔ کئی صہیونی آبادکاروں نے جو تشدد مقامی فلسطینیوں پر کیا، وہ تاریخ کا حصہ ہے: یومِ نکبہ کے دوران ارگون گینگ جیسے گینگز کے ہاتھوں فلسطینیوں کے قتلِ عام کے حوالے سے مصدقہ حوالہ جات موجود ہیں۔

تب سے لے کر اب تک تشدد اور بے گھری فلسطینی عربوں کا بدقسمتی سے مقدر رہی ہے۔ مگر اسرائیل اس سے بھی مطمئن نہیں ہے۔

مزید پڑھیے: اسرائیل میں موجود عربوں کا بائیکاٹ کیاجائے، اسرائیلی وزیردفاع

اپنی حقیقی حدود کے اندر رہنے کے بجائے تل ابیب نے عرب زمین بزورِ طاقت ہتھیائی ہے جس میں یروشلم کا مرکزی مقدس شہر بھی ہے، جبکہ غیر قانونی آبادکاری بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

چنانچہ یہ 'قومی ریاست کا قانون' صرف سخت گیر صہیونی منصوبوں کا اعادہ ہے اور یہ منصوبہ ہے کہ فلسطینیوں کا فلسطین سے نام و نشان مٹا دیا جائے۔

یہ قانون دو ریاستی حل کی امید رکھنے والوں کی امیدوں کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ اسرائیل پر حکمران دائیں بازو کی حکومت کا واضح مؤقف ہے: کوئی دو ریاستی حل نہیں ہوگا اور فلسطینیوں کو ان کے حقوق اور ان کی زمین دینے کی تمام کوششوں کی مخالفت اور مزاحمت کی جائے گی۔

یہ اداریہ ڈان اخبار میں 21 جولائی 2018 کو شائع ہوا۔

انگلش میں پڑھیں۔

تبصرے (0) بند ہیں