کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سابق سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) راؤ انوار کی غیر قانونی اسلحہ اور دھماکا خیز مواد رکھنے کے مقدمے میں ضمانت کے بعد رہائی کے احکامات جاری کردیے۔

راؤ انوار کے خلاف وزیرستان سے تعلق رکھنے والے نقیب اللہ ودیگر کو جعلی مقابلے میں قتل کرنے اور غیر قانونی اسلحہ اور دھماکہ خیز مواد رکھنے کے الزام پر مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

انسداد دہشت گردی عدالت نے دونوں مقدمات میں ضمانت ملنے کے بعد رہائی کے احکامات دیے ہیں جو جیل حکام کو جلد ہی ارسال کردیے جائیں گے۔

خیال رہے کہ راؤ انوار کے خلاف نقیب اللہ و دیگر کی جعلی مقابلے میں قتل کے مقدمے میں ضمانت 10 جولائی کو ہوئی تھی اور دوسرے مقدمے میں 20 جولائی کو ضمانت منظور ہوئی تھی۔

راؤانوار کے دونوں مقدمات میں عدالت نے 10، 10 لاکھ روپے کی ضمانت منظور کی تھی۔

مزید پڑھیں:نقیب اللہ قتل کیس کے مرکزی ملزم راؤ انوار کی ایک اور مقدمے میں ضمانت منظور

مقدمے میں ںامزد ڈی ایس پی قمر احمد سمیت 4 ملزمان کی درخواست ضمانت پر فیصلہ 28 جولائی کو سنایا جائے گا۔

یاد رہے کہ نقیب اللہ محسود اور دیگر 4 افراد کو رواں سال 13 جنوری کو مبینہ طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے تعلق کے الزام میں مقابلے میں مار دیا گیا تھا۔

ایس ایس پی راؤ انوار نے دعویٰ کیا تھا کہ تمام چاروں افراد کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم ٹی ٹی پی سے تھا۔

نقیب اللہ قتل کیس

خیال رہے کہ رواں سال جنوری میں مبینہ طور پر ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے شاہ لطیف ٹاؤن کے عثمان خاص خیلی گوٹھ میں مبینہ جعلی پولیس مقابلے میں جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ نقیب اللہ اور دیگر 3 افراد کو قتل کردیا تھا.

اس وقت الزام لگایا گیا تھا کہ پولیس مقابلے میں مارے جانے والے افراد دہشت گردی کے بڑے واقعات میں ملوث تھے اور ان کے لشکر جنگھوی اور عسکریت پسند گروپ داعش سے تعلقات تھے۔

اس واقعے کے بعد نقیب اللہ کے ایک قریبی عزیز نے پولیس افسر کے اس متنازع بیان کی تردید کرتے ہوئے بتایا تھا کہ مقتول کاروبار کی غرض سے کراچی میں مقیم تھا اور اسے ماڈلنگ کا شوق تھا۔

جس کے بعد یہ معاملہ سوشل میڈیا پر انتہائی شدت اختیار کرگیا اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کی پر مذمت اور محسود قبیلے کے شدید احتجاج کے بعد 19 جنوری کو چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے اس واقعے پرپر از خود نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد مذکورہ کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں، راؤ انوار کافی عرصے منظر عام سے غائب رہنے کے بعد عدالت میں پیش ہوئے، تاہم انہیں جیل منتقل کرنے کے بجائے ان کے گھر پر ہی نظر بند کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: نقیب اللہ کو ’جعلی انکاؤنٹر‘ میں مارا گیا، تحقیقاتی کمیٹی کا انکشاف

رواں ماہ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 6 جولائی کو اس کیس میں راؤ انوار کی درخواست ضمانت پر فیصلہ محفوظ کیا تھا بعد ازاں 10 جولائی کو سنائے گئے فیصلے میں ان کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں