اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے ایک روز قبل ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں اپنے خطاب کے دوران لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سے آزاد کمیشن تشکیل دینے کی تحریری طور پر درخواست کر دی۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس کے نام خط میں تحریر کیا ہے کہ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن نے اپنے صدر کے توسط سے ایک تقریب میں خطاب کی دعوت دی جس کو میں نے بحیثیت رکن قبول کی اور تقریر کی جہاں وکلا سمیت ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی، ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی برانچ، اسلام آباد ہائی کورٹ بارایسوسی ایشن، پنجاب بار ایسوسی ایشن کے اراکین اور میڈیا کے نمائندوں نے شرکت کی۔

چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انھوں نے کہا ہے کہ تقریب سے خطاب کے دوران میں نے چند حقائق پیش کیے تھے جو قانون کی بالادستی اور بار و بنچ کی آزادی سے متعلق تھے لیکن میرے ان حقائق سے چند حلقے خوش نہیں ہیں اسی لیے سوشل اور الیکٹرانک میڈیا میں جھوٹ اور بہتان طرازی پر مبنی مہم شروع کر دی گئی ہے۔

مزید پڑھیں:جسٹس شوکت صدیقی کا عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام

انھوں نے تحریر کیا ہے کہ مجھے سوشل میڈیا اور سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان سے معلوم ہوا ہے کہ آپ بھی میری جانب سے پیش کیے گئے حقائق کی تصدیق کیے بغیر غصے میں ہیں۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے حوالے سے آپ کا غصہ نیا اور غیرمعمولی نہیں ہے۔

انھوں نے کہا کہ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) کی جانب سے انکوائری کی درخواست کے بعد میں بھی آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اس معاملے کی تصدیق اور صداقت کے حوالے سے چھان بین کے لیے ایک کمیشن تشکیل دے دیں۔

جسٹس شوکت صدیقی نے واضح کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر آزاد کمیشن میری جانب سے پیش کیے گئے حقائق کے بارے میں کہتا ہے کہ اس میں کوائی صداقت نہیں تو میں اس کے نتائج بھگتنے کو تیار ہوں لیکن دوسری طرف میرے حقائق درست ثابت ہوں تو میں ان حضرات کے قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے پوچھنے کا حق رکھتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس شوکت صدیقی کے بیان کا جائزہ لیں گے، چیف جسٹس

انھوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی ہے کہ کمیشن کی تحقیقات وکلا برادری، میڈیا اور سول سوسائٹی کی موجودگی میں کھلی عدالت میں کرنے اور اسی کو رپورٹ کرنے کے احکامات صادر کریں۔

جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے مزید درخواست کی ہے کہ کمیشن میں سپریم کورٹ کے موجودہ یا سابق ایسے جج کو کمیشن میں بٹھا دیں جس نے پی سی او کے تحت حلف نہ اٹھایا ہو۔

خیال رہے کہ جسٹس شوکت عزیزصدیقی نے 21 جولائی کو راولپنڈی ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی ایک تقریب میں خطاب کے دوران الزام عائد کیا تھا کہ’ آج کے اس دور میں انٹر سروسز انٹیلی جنس ( آئی ایس آئی )پوری طرح عدالتی معاملات کو مینی پولیٹ کرنے میں ملوث ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’خفیہ ادارے کے اہلکاروں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد انور خان کاسی تک رسائی کرکے کہا کہ ہم نے انتخابات تک نواز شریف اور ان کی بیٹی کو باہر نہیں آنے دینا، شوکت عزیز صدیقی کو بینچ میں شامل مت کرو، اور میرے چیف جسٹس نے کہا جس بینچ سے آپ کو آسانی ہے ہم وہ بنا دیں گے‘۔

اپنے خطاب کے دوران بغیر کسی کا نام لیے انہوں نے الزام لگایا کہ ’ مجھے پتہ ہے سپریم کورٹ میں کس کے ذریعے کون پیغام لے کر جاتا ہے، مجھے معلوم ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ان احتساب عدالت پر ایڈمنسٹریٹو کنٹرول کیوں ختم کیا گیا‘۔

بعد ازاں چیف جسٹس ثاقب نثار نے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری میں مقدمات کی سماعت کے دوران کہا تھا کہ ’کسی میں جرأت نہیں کہ عدلیہ پر دباؤ ڈال سکے، پھر بھی حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں‘۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ ’اس طرح کے بیان ناقابل فہم اور ناقابل قبول ہیں تاہم جائزہ لیں گے، کیا قانونی کارروائی ہوسکتی ہے‘۔

مزید پڑھیں:پاک فوج کا جسٹس شوکت صدیقی کے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ

بعد ازاں سپریم کورٹ کے ترجمان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے پیمرا سے تقریر کا مکمل ریکارڈ طلب کر لیا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ چیف جسٹس نے عدالتی معاملات میں خفیہ اداروں کی مداخلت سے متعلق ہائی کورٹ کے جج کی تقریر کا نوٹس لیا، جس میں جسٹس شوکت صدیقی کی جانب سے ڈسٹرکٹ بار راولپنڈی میں کی گئی تقریر میں عدالتوں میں خفیہ اداروں کی مداخلت کا الزام عائد کیا تھا۔

دوسری جانب پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک بیان میں جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی جانب سے ریاستی ادارے پر لگائے جانے والے الزامات کی تحقیقات کا مطالبہ کردیا۔

انھوں نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ سچائی جاننے کے لیے ان الزامات کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں