عام انتخابات میں جہاں ہر طرف امیدوار ووٹرز کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے ہر طرح کی کوششوں میں مصروف ہیں لیکن ایک امیدوار کو دیہی حلقے کو محفوظ کرنے کے علاوہ اخراجات کے حوالے سے کیا خدشات لاحق ہوسکتے ہیں۔

اسی حوالے سے ڈان اخبار میں شائع مضمون کے مطابق انتخابات 2018 کے سلسلے میں انتخابی عمل جاری ہے اور امیدوار معمولی اخراجات کے ساتھ مؤثر طریقے سے انتخابی مہم چلانے کی کوششوں میں مصروف ہیں جبکہ عام طور پر سیاسی اور آزاد امیدواروں کو متاثر کن مہم کے لیے جدید اور مہنگے طریقوں کی تلاش ہوتی ہے۔

اسی طرح بڑی تعداد میں رقم کی دستیابی کے ساتھ ہی ان کی اخراجات کے بارے میں فکر کم ہوجاتی ہے اور ان کا مقصد ووٹرز پر اثر و رسوخ حاصل کرنا ہوتا ہے، یہاں تک کہ کچھ امیدوار ووٹرز خریدنے کے پیسے بھی ادا کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: الیکشن 2018: ایسا مت کریں، ووٹ خارج ہوسکتا ہے!

انتخابی مہم کے دوران اخراجات کا آغاز اسی وقت سے ہوجاتا ہے جب مہم کی نگرانی کے لیے دیہی علاقوں میں ’ اوطاق ‘ یا شہری علاقوں میں دفاتر قائم کیے جاتے ہیں اور یہ اخراجات پولنگ کے دن تک جاری رہتے ہیں۔

انتخابات میں حصہ لینے والے امیدوار اس بات پر متفق ہیں کہ الیکشن ٹکٹ حاص کرنے کے ساتھ ہی انتخابی مہم پر 40 فیصد اخراجات آجاتے ہیں جبکہ باقی 60 فیصد اخراجات صرف انتخابات والے دن ایندھن اور ٹرانسپورٹیشن پر ہوجاتے ہیں۔

ہر امیدوار اپنے فنڈز میں سے بڑا حصہ اس اہم ضرورت کے لیے محفوظ کرکے رکھتا ہے، شہری حلقوں میں تو ووٹرز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کے لیے باآسانی موٹرسائیکل پر بھی لے جایا جاسکتا ہے لیکن دیہی حلقوں میں یہ کام بہت مشکل ہوجاتا ہے۔

انتخابات میں ٹرانسپورٹ کے علاوہ امیدواروں کو اپنے اسٹیکرز، کتابچے اور پوسٹرز چھپوانے پڑتے ہیں تاکہ حمایتی اور ووٹرز ٹرینڈ کو فالو کرسکیں۔

اس حوالے سے بینرز، ہینڈبلز اور پوسٹرز تیار کرنے والے شاہد قریشی کا کہنا تھا کہ ’ 2013 میں مارکیٹ میں اس طرح کی اطلاعات تھیں کہ سیاسی جماعت کے امیدوار نے پینافلیکس، بینرز، اسٹیکرز اور کتابچے پر 15 لاکھ روپے تک خرچ کیے‘۔

یہ بھی پڑھیں: ووٹوں کا موسم

واضح رہے کہ گزشتہ 2 انتخابات میں بل بورڈز پر پینافلیکس بینرز لگانا کافی مشہور تھا اور اس کام پر بڑی تعداد میں رقم خرچ کرکے بل بورڈز لیے جاتے تھے، تاہم حالیہ انتخابات میں الیکشن کمیشن پاکستان ( ای سی پی ) کی جانب سے بینرز، جھنڈوں، پینافلیکس و دیگر کے سائز سے متعلق پابندیاں لگائے جانے کے بعد سے امیدواروں کی جانب سے بل بورڈز نہیں ںظر آئے اور وہ اپنا پیغام پہنچانے کے لیے کتابچے یا ہینڈ بلز کا استعمال کر رہے ہیں۔

اس بارے میں ایک پولیٹیکل پارٹی کے کارکن نے بتایا کہ ’ ہمارے امیدوار نے گزشتہ انتخابات میں ایک دیہی حلقے میں 3 کروڑ روپے تک خرچ کیے اور انہوں نے خوراک، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر چیزوں پر کھل کر رقم خرچ کی تھی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں