اسلام آباد: حکومت نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ بھارتی جیلوں میں کم از کم 327 پاکستانی قید ہیں جبکہ ملک کی مختلف جیلوں میں 365 بھارتی شہری قید ہیں۔

وفاقی حکومت نے تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ بھارت کی جیلوں میں 327 پاکستانیوں میں سے 108 ماہی گیر ہیں دوسری جانب پاکستان کی جیلوں میں قید 418 بھارتی شہریوں میں سے 365 ماہی گیر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’بھارت میں پاکستانی قیدیوں کو عبادت تک نہیں کرنے دی جاتی‘

عدالت عظمیٰ میں پیش کردہ رپورٹ میں وزارت خارجہ نے وضاحت دی کہ نئی دہلی نے پاکستانی ہائی کمیشن کو یکم جولائی تک زیر حراست پاکستانی قیدیوں کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔

پاکستان فشرفورک فورم (پی ایف ایف)، پاکستان انسٹیٹویٹ لیبر ایجوکیشن اینڈ ریسرچ (پائیلر) کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر کردہ پٹیشن میں بھارتی جیلوں میں قید پاکستانی شہریوں کی زندگی کو اذیت ناک قرار دیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی جبکہ پٹیشن دائر کرنے والوں کی جانب سے سینئر وکیل فیصل صدیقی پیش ہوئے۔

رپورٹ کے مطابق پاکستانی حکام کو جب بھی بھارتی جیلوں کے اندر ماہی گیروں کی موجودگی کی اطلاع ملتی ہے تو وہ بھارت میں خارجہ امور سے رابطہ بحال کرکے قونصلر رسائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور پاکستانی ماہی گیر کی معلومات اکھٹی کرتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جیل میں قیدیوں کے اشتعال انگیز نعروں کے باعث نواز شریف کی نقل و حرکت محدود

اس ضمن میں جمع ہونی والی تمام معلومات وزارت داخلہ کو تصدیق کے لیے بھیجی جاتی ہے اور جب زیر حراست شخص کی تصدیق ہوجاتی ہے تو حکومت، بھارت میں قید ماہی گیروں کی واپسی کے لیے کوششیں شروع کر دیتی ہے۔

اس حوالے سے مزید بتایا گیا کہ قیدیوں سے متعلق پاک بھارت جوڈیشل کمیٹی جنوری 2007 میں قائم کی گئی جس میں دونوں ممالک کی جانب سے 4 ریٹائر جج شامل ہوتے ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ کمیٹی کی مینڈیٹ میں زیر حراست قیدیوں کے حالات کا جائزہ لینا اور ان کی بازیابی کے لیے سفارشات طے کرنا ہے۔

نئی دہلی کی جانب سے ’وسیع تر دوطرفہ مذاکرات‘ کا عمل معطل کردینے کی وجہ سے کمیٹی اکتوبر 2013 کے بعد سے بھارت کا ایک دورہ بھی نہیں کر سکی۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں موجود 546 بھارتی قیدیوں کی فہرست نئی دہلی کےحوالے

آخری اجلاس میں کمیٹی نے بھارتی بار کونسل کو نوٹس لینے کا کہا تھا کہ بھارتی وکلاء پاکستانی شہریت رکھنے والے ملزمان کا مقدمہ لڑنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

کمیٹی نے سفارشات پیش کی تھیں کہ دونوں ممالک کی عدالتیں قیدیوں کی رہائی کے لیے خصوصی انتطامات کریں اور قیدیوں کو تمام قانونی سہولیات فراہم کی جائیں۔


یہ خبر 29 جولائی 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں