اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سابق وزیر مملکت برائے داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما طلال چوہدری کو توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انہیں عدالت برخاست ہونے تک کی سزا سنادی، جس کے ساتھ ہی وہ 5 سال کے لیے نااہل ہوگئے۔

سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 11 جولائی کو طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کا فیصلہ محفوظ کیا تھا جسے آج سنایا گیا۔

مذکورہ کیس میں آج ہونے والی مختصر سماعت میں فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے طلال چوہدری پر ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا, ساتھ ہی انہیں عدالت برخاست ہونے تک کی سزا بھی سنائی گئی۔

مزید پڑھیں: توہینِ عدالت کیس: طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد

خیال رہے کہ مسلم لیگی رہنما طلال چوہدری عدالتی فیصلے کے خلاف ایک ماہ کے اندر نظرثانی کی درخواست کرسکتے ہیں۔

بعد ازاں عدالت نے توہین عدالت کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کیا جو جسٹس گلزار احمد نے تحریر کیا تھا۔

تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کی تقاریر توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں اور یہ تقاریر آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت آرڈینینس کے سیکشن 18 کے تحت قابل سزا ہیں۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ طلال چوہدری کے وکیل نے عدالت سے درگرز کرنے کی استدعا کی تھی اور عدالتی درگزر کی نظائر بھی پیش کیں جبکہ وکیل کی جانب سے فیصل رضا عابدی اورخادم حسین رضوی کی تقاریر کا حوالہ بھی دیا گیا۔

عدالت کے تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ ہر کیس کی نوعیت دوسرے سے مختلف ہوتی ہے، کچھ مقدمات پر صبر و تحمل کا مظاہرہ نہیں کیا جا سکتا، توہین آمیز الفاظ سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے فیصلے کے تناظر میں ادا کیے گئے،عدالت کے خلاف توہین آمیز الفاظ سے عدالت کا وقار مجروح ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا کہ عدالت کو اسکینڈلائز کیا گیا اور عدلیہ کا مذاق اڑایا گیا، طلال چوہدری آئین کے آرٹیکل 204 اور توہین عدالت کی سیکشن 3 کے تحت مجرم قرار پائے ہیں۔

عدالتی فیصلے کے مطابق توہین عدالت آرڈیننس کی سیکشن 3 اور 5 کے تحت عدالت برخاست ہونے تک طلال چوہدری کو قید کی سزا سنائی گئی اور ایک لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔

’فیصلے سے عدالتی وقار میں اضافہ ہوا تو قبول کرتا ہوں‘

بعد ازاں عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میری مخالفین نے میرے خلاف انتخابات سے قبل مہم چلائی لیکن اس کے باوجود مجھے مخالفین سے زیادہ ووٹ ملے۔

انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ انتخابات سے پہلے آجاتا تو میری جماعت کو مجھ سے بہتر امیدوار کھڑا کرنے کا موقع ملتا، آج اس فیصلے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ مسلم لیگ (ن) نہ پہلے قابل قبول تھی نہ انتخابات کے بعد ہے۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ہمیں اس تاثر کو بہتر کرنا ہے کیونکہ پاکستان کا آئین اور قانون یہ کہتا ہے کہ تمام جماعتوں کو ایسا ماحول فراہم کیا جائے جو غیر جانبدارانہ ہو۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب حکومت سازی چل رہی ہے، ایسا فیصلہ آنا حکومت سازی کو متاثر کرے گا، اگر اس فیصلے سے عدالت کے وقار میں اضافہ ہوا ہے تو میں اسے قبول کرتا ہوں۔

مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے مزید کہا کہ میں جمہوریت پسند اور آئین کا تابع ہوں، میں نواز شریف کا ماننے والا ہوں لیکن میرے خیال میں عدلیہ کے وقار میں اس وقت اضافہ ہوگا جب یہاں سے توہین عدالت کی جگہ توہین آئین کی سزا ہوگی اور کسی آمر کو سزا ملے گی تو پھر پاکستان میں عدل کا بول بالا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے رہنما اور قیادت محبت وطن، دیانت دار، محنتی اور کام والے بھی ہیں، ایٹمی دھماکے کی ضرورت ہو یا سی پیک بنانے کی تو ہمیشہ مسلم لیگ (ن) ہی کام آتی ہے اور ان سب کے علاوہ ہم جمہوریت پسند اور آئین کے پاسدار بھی ہیں لیکن نہ جانے کیوں ہم اہل نہیں ہیں، ہم حکمرانی کے لیے نااہل ہیں۔

طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ کیا اہلیت اور نااہلیت کے فیصلے عوام پر چھوڑ دینے چاہیے کیونکہ جب یہ فیصلے ادارے کرتے ہیں تو پھر وہ متازع ہوجاتے ہیں۔

مقدمے کا پس منظر

یاد رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری کی 24 اور 27 جنوری 2018 کی تقاریر میں عدلیہ مخالف تقاریر پر نوٹس لیا تھا۔

طلال چوہدری نے مسلم لیگ (ن) کے جڑانوالہ میں جلسے کے دوران عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'ایک وقت تھا جب کعبہ بتوں سے بھرا ہوا ہوتا تھا، آج ہماری عدالت جو ایک اعلیٰ ترین ریاستی ادارہ ہے میں پی سی او ججز کی بھرمار ہے'۔

انہوں نے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'میاں صاحب انہیں باہر پھینک دو، انہیں عدالت سے باہر پھینک دو، یہ انصاف نہیں دیں گے بلکہ اپنی نا انصافی جاری رکھیں گے'۔

بعد ازاں یکم فروری چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کو عدلیہ کے خلاف تقریر کرنے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا تھا۔

سپریم کورٹ نے 6 فروری 2018 کو طلال چوہدری کو شو کاز نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں ایک ہفتے میں وکیل کی خدمات حاصل کرنے کی مہلت دی تھی۔

طلال چوہدری نے 24 فروری کو سپریم کورٹ میں توہینِ عدالت کیس میں اپنا عبوری جواب جمع کرایا تھا۔

سپریم کورٹ نے 26 فروری کو وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری سے متعلق توہینِ عدالت ازخود نوٹس کیس میں وکیل کی عدم پیشی پر سماعت 6 مارچ تک ملتوی کردی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: توہین عدالت کیس: طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم

عدالت عظمیٰ نے 6 مارچ کو ہونے والی سماعت میں ڈپٹی اٹارنی جنرل کو بیانات سے متعلق سی ڈی طلال چوہدری کو فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

14 مارچ کو ہونے والی سماعت کے دوران طلال چوہدری پر فردِ جرم عائد نہیں کی جاسکی تھی۔ بعد ازاں 15 مارچ کو ان پر توہین عدالت مقدمے میں فرد جرم عائد کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 21 مئی کو سپریم کورٹ میں کیس کی سماعت کے دوران طلال چوہدری کو اپنے دفاع میں گواہان پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں