اسلام آباد: چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے ہیں کہ قرض واپس کرنے والوں کو مہلت دی جائے گی جبکہ قرض ادا نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس کو بھجوا دیں گے۔

چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 54 ارب روپے قرض معافی کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت نے بینک سربراہان کو طلب کیا تھا، کیا وہ آئے ہیں؟ اس پر عدالت میں موجود بینک افسران پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: قرض معافی کیس: 222 افراد کو 75 فیصد قرض کی رقم جمع کرانے کا حکم

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نے 3 آپشن دیے تھے، ہماری خواہش ہے کہ قرض کی کل رقم کا 75 فیصد جمع کرایا جائے، جو اس آپشن پر عمل کرنا چاہتا ہے وہ بتادے اور کتنے دنوں تک رقم واپس کی جائے گی وہ بھی بتا دی جائے۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ ہم نے وہ رقم ڈیم کی تعمیر کے لیے لگانی ہے، ہم سپریم کورٹ میں جگہ فراہم کردیتے ہیں کہ کمیشن بنا کر اس مسئلے کا حل نکالا جائے۔

اس دوران عدالت میں موجود حبیب بینک کے سربراہ کا کہنا تھا کہ ہمارے کچھ ایسے صارفین ہیں، جنہوں نے بینک سے قرضہ لیا ہے، ان صارفین کے ساتھ معاملات چل رہے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جس کا جو بھی مسئلہ ہے وہ مل بیٹھ کر حل کرلیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرض واپس کرنے والوں کو مہلت دیں گے لیکن قرض واپس نہ کرنے والوں کے مقدمات بینکنگ کورٹس میں بھجوا دیں گے۔

عدالت عظمیٰ میں دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بینک تو اس رقم کو بھول چکے تھے، بینکنگ کورٹس میں جانے والوں کو مکمل رقم بطور سیکیورٹی جمع کروانا ہوگی۔

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ یہ قرض معافی والی رقم ڈیمز کے لیے مختص کریں گے، یہ مشق ہمیں تیزی سے مکمل کرنے ہے، جلد مقدمات نمٹانے کے لیے خصوصی ٹریبیونل تشکیل دیں گے اور یہ ٹریبیونل 6 ہفتوں میں مقدمات نمٹانے کے پابند ہوں گے۔

یہ بھی پڑھیں: قرض معافی کیس:’اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ نیب کو بھیج دیں گے‘

اس موقع پر بینک افسران نے بتایا کہ کمیشن نے واجب الادا رقم درست لکھی ہے، جس پر چیف جسٹس نے حکم دیا کہ بینک افسران اور قرض نادہندگان حتمی فہرست آج ہی مرتب کریں، فہرست مکمل ہونے پر دوبارہ سماعت کریں گے۔

خیال رہے کہ گزشتہ سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے قرض معافی کیس میں 222 افراد کو 3ماہ میں واجب الادا قرض کا 75 فیصد حصہ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔

اس سے قبل سماعت میں چیف جسٹس نے 222 کمپنیوں سے ایک ہفتے میں تفصیلی جواب طلب کرتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ اگر قوم کے پیسے واپس نہ کیے تو معاملہ قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیں گے اور قرض نادہندگان کی جائیدادیں بھی ضبط کرلی جائیں گی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 02, 2018 06:12pm
حبیب بینک کو تو امریکا کو 225 ملین ڈالر یا آج کے حساب سے 27,787,500,000 روپے جرمانہ ادا کرنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا، یہ رقم بھی پاکستان کی تھی اور اب جب قرضے لینے والوں سے سپریم کورٹ وصولی کرنا چاہتی ہے تو اس پر اعتراض ہے۔ آخر کیوں