اسلام آباد: نگراں حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری منتخب حکومت پر عائد کردی۔

واضح رہے کہ آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی جانب سے 46 فیصد اضافے کی سمری ارسال کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: گھریلو صارفین کیلئے گیس 200 فیصد مہنگی کرنے کی سفارش

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق نگراں حکومت نے اوگرا کو مراسلہ ارسال کیا جس میں تحریر تھا کہ ’گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ منتخب ہونے والی وفاقی حکومت کو لینا چاہیے‘۔

اوگرا کو ہدایت کی گئی کہ ’گیس کی موجودہ قیمتوں کو اگلی تجویز تک برقرار رکھا جائے‘۔

خیال رہے کہ 21 جون کو اوگرا نے وفاقی حکومت کو گیس کی قیمتوں سے متعلق دو سمری ارسال کی تھیں۔

قانون کے مطابق گیس کی قیمتوں میں سال میں دو مرتبہ نظر ثانی کی جا سکتی ہے، سیکشن 8(تھری) میں واضح ہے کہ اوگرا کی جانب سے پیش کردہ تجویز پر وفاقی حکومت 40 دن کے اندر جواب دینے کی پابند ہو گی۔

مزید پڑھیں: گیس اصلاحات گھریلو صارفین پر اثر انداز ہوں گی

سیکشن 8 کی شق 4 کہتا ہے کہ اگر وفاقی حکومت مقررہ وقت میں گیس کی قیمتوں پر اپنا فیصلہ دینے میں ناکام ہوتا ہے تو اوگرا خود سے قیمتیں میں اضافے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔

قانون واضح ہے وفاقی کابینہ کو اوگرا کی سفارشات پر 31 جولائی تک فیصلہ دینا چاہیے تھا۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ دونوں ادارے حکومت اور اوگرا قانون کے منافی کام کررہے ہیں جو گزشتہ 4 برس سے جاری ہے۔

دونوں اداروں کی وجہ سے سوئی نادرن گیس اور سوئی سدرن گیس کمپنی لیمٹڈ کو بلترتیب 125 ارب روپے اور80 ارب روپے کا نقصان ہو چکا ہے۔

اوگرا کے ترجمان عمران غزنوی نے موقف اختیار کیا کہ ’نئی حکومت کو ذمہ داری سنبھالنے دی جائے اور وہ ہمیں تجویز پیش کرے‘۔

یہ بھی پڑھیں: آئل، گیس اور دیگر معدنی ذخائر کو کنٹرول کرنے کیلئے صوبے متحرک

خیال رہے کہ اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کا اطلاق 19-2018 کے مالی سال میں ہوگا۔

اوگرا کے مطابق سوئی سدرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس ایس جی سی) کو سندھ اور بلوچستان میں اپنے جاری پروگرام کے لیے اگلے مالی سال کے دوران 167 ارب روپے درکار ہیں جس کی بنیاد پر انہوں نے 45.54 فیصد اضافے کی منظور دی۔

اسی طرح اتھارٹی نے 19-2018 مالی سال میں سوئی نادرن گیس کمپنی لمیٹڈ (ایس این جی پی ایل) کو پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتظامی و ترسیلی نظام کو جاری رکھنے کے لیے 287 ارب روپے درکار ہیں جس کے لیے 3.37 فیصد اضافہ کیا گیا۔

تبصرے (0) بند ہیں