سپریم کورٹ میں جعلی بنک اکاؤنٹس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار نے معاملے پر نواز شریف کی طرز پر جے آئی ٹی بنانے کی تجویز دے دی۔

سپریم کورٹ میں منی لانڈرنگ کرنے کی تحقیات میں تاخیر سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کی۔

سماعت کے دوران ڈی جی ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ 29 مشکوک بینک اکاؤنٹس ہیں جو سمٹ بینک، سندھ بینک اور یونائیٹڈ بینک میں کھولے گئے اومنی گروپ سے رقم زرداری گروپ کو بھی منتقل ہوئی۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اومنی گروپ کے اکاؤنٹس کو جعلی کیسے کہہ سکتے ہیں جس پر ڈی جی ایف آئی اے نے جواب دیا کہ اکاؤنٹ میں رقم جمع کرانے والے اصل لوگ ہیں، تاہم رقم جن اکاؤنٹس میں جمع ہوئی وہ اکاونٹس جعلی ہیں۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور مفرور قرار

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے رقم واپس اپنے اکاؤنٹ میں لانے کا مقصد کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ جعلی اکاؤنٹس سے رقم کہاں گئی، لسٹ دیں کہ 29 اکاؤنٹس کن کے نام پر ہیں؟

کچھ لوگ کہتے ہیں یہ اکاؤنٹس انہوں نے کھولے ہی نہیں، لگتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کھول کر کالا دھن جمع کرایا گیا، دیکھنا یہ ہے کہ کالا دھن سفید کرنے کا بینفیشری کون ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کے مالک انور مجید کہاں ہیں، جس پر انور مجید کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انور مجید بیمار ہیں اور لندن میں ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ جب بھی اس طرح مقدمہ آتا ہے، لوگ ہسپتال چلے جاتے ہیں، انور مجید سے کہیں آئندہ ہفتے ہرحال میں پیش ہوں۔

عدالت میں ملزم کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالت کے منع کرنے کے باوجود ایف آئی اے نے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور قرار دے دیا ہے جو پری پول دھاندلی کے مترادف ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں کہ تحقیقات کو روک دیا جائے؟ جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میرے مؤکل نہیں چاہتے کہ انکوئری روکی جائے، مگر روزانہ بلا کر جرم قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: زرداری کے خلاف آخری کرپشن کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آصف زرداری اور فریال تالپور ایف آئی اے کی انکوائری میں پیش ہو کر اپنے آپ کو بے گناہ ثابت کریں اگر وہ بے گناہ ثابت ہوئے تو میں بشیرمیمن، ایف آئی اے اور نیب کے خلاف لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے پر مقدمہ درج کراؤں گا۔

چیف جسٹس نے فاروق نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ پریشان ہیں، چوری کا مال ہضم نہیں کرنے دیں گے،اگر آپ کے مؤکل بے گناہ ہیں تو عدالت سے سرخرو ہو کر جائیں گے، انور مجید کے ساتھ آپ کے مؤکل کے کیا تعلقات ہیں یہ آپ بھی جانتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ 35 ارب روپے لوٹ لیے جائیں اور سپریم کورٹ ہاتھ نہ ڈالے یہ کیسے ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میرے علم میں ہے کہ کسی متوقع وزیر کے کہنے پر گواہوں کو حراساں کیا جارہا ہے، بڑے آدمی کے خلاف تحقیقات شروع ہوتی ہیں تو پولیس گردی شروع کر دی جاتی ہے، سندھ کو پولیس اسٹیٹ بنا دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر کسی کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں تو گرفتار نہ کیا جائے۔

عدالت میں آئی جی سندھ امجد جاوید سلیمی بھی پیش ہوئے۔

عدالت نے انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ کو ذمہ دار پولیس افسران کے خلاف کاروائی کا حکم دیتے ہوئے لوگوں کو حراساں کرنے کے معاملے کی 2 روز میں تحقیقات کر کے رپورٹ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

عدالت نے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) سندھ مشتاق کو انکوائری سے الگ کرتے ہوئے گواہوں کو تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری کے قریبی ساتھی حسین لوائی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع

عدالت نے اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ایف آئی آر میں ان کے خاندان کے نامزد افراد کو پیر تک پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے آئندہ سماعت پر مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دینے کا عندیہ بھی دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اسی طرح کی جے آئی ٹی بنائیں گے جیسے نواز شریف کے خلاف بنائی تھی۔

ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) ایف آئی اے بشیر میمن نے کہا کہ جے آئی ٹی میں اسٹیٹ بینک، چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ، سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن پاکستان (ایس ای سی پی) اور دیگر ماہر لوگ ہونے چاہئیں۔

ایف آئی کی تحقیقاتی رپورٹ

جعلی بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کے معاملے پر ایف آئی اے نے نئی تحقیقاتی رپورٹ بھی سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔

رپورٹ کے مطابق 3 بینکوں کی 6 برانچز میں 29 جعلی اکاؤنٹس بنائے گئے جن میں جعلی بینک اکاؤنٹس میں 7 کمپنیاں اور افراد ملوث ہیں۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی ٹھیکیدار اتنی بڑی رقم کا بندوبست نہیں کرسکتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ آصف علی زرداری کے اکاؤنٹس سے جعلی اکاؤنٹس میں ٹرانزیکشنز ہوئیں تھیں۔

رپورٹ کے مطابق سمٹ بینک کے ذریعے 4 ارب 34 کروڑ 70 لاکھ روپے ٹرانسفر کئے گئے اور جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے 3 ارب 90 کروڑ 20 لاکھ روپے اومنی گروپ کو منتقل کئےگئے۔

واضح رہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے 6 جولائی کو حسین لوائی سمیت 3 اہم بینکرز کو منی لانڈرنگ کے الزامات میں حراست میں لیا گیا تھا۔

7 جولائی کو حسین لوائی اور طحٰہ رضا کو کراچی کی مقامی عدالت میں پیش کیا گیا تھا، جہاں 11 جولائی تک ان کا جسمانی ریمانڈ دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’کبھی بھی انور مجید کے ساتھ تعلقات سے انکار نہیں کیا‘

11 جولائی کو کراچی کی مقامی عدالت نے حسین لوائی کے جسمانی ریمانڈ میں 14 جولائی تک توسیع کرتے ہوئے انہیں ایف آئی اے کے حوالے کردیا تھا۔

21 جولائی کو ایف آئی اے نے کراچی کی خصوصی عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کا چالان پیش کیا جس میں سابق صدر آصف زرداری اور فریال تالپور کو مفرور قرار دیا گیا تھا۔

حسین لوائی و دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر کے اہم مندرجات

یاد رہے کہ حسین لوائی اور دیگر کے خلاف درج ایف آئی آر میں اہم انکشاف سامنے آیا تھا جس کے مطابق اس کیس میں بڑی سیاسی اور کاروباری شخصیات کے نام شامل تھے۔

ایف آئی آر کے مندرجات میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی آصف علی زرداری اور فریال تالپور کی کمپنی کا ذکر بھی ہے، اس کے علاوہ یہ بھی ذکر ہے کہ زرداری گروپ نے ڈیڑھ کروڑ کی منی لانڈرنگ کی رقم وصول کی۔

ایف آئی آر میں انور مجید کی کمپنیوں کا تذکرہ بھی ہے جبکہ ابتدائی طور پر 10 ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔

مزید پڑھیں: حسین لوائی کو پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی صدارت سے ہٹادیا گیا

وفاقی تحقیقاتی ادارے کی جانب سے درج ایف آئی آر میں چیئرمین سمٹ بینک نصیر عبداللہ لوتھا، انور مجید، نزلی مجید، نمرہ مجید، عبدالغنی مجید، اسلم مسعود، محمد عارف خان، نورین سلطان، کرن امان، عدیل شاہ راشدی، طٰحٰہ رضا نامزد ہیں۔

ایف آئی آر کے متن میں منی لانڈرنگ سے فائدہ اٹھانے والی کمپنیوں اور افراد کو سمن جاری کردیا گیا جبکہ فائدہ اٹھانے والے افراد/ کمپنیوں سے وضاحت بھی طلب کی گئی۔

ایف آئی آر کے متن میں کہا گیا کہ اربوں روپے کی منی لانڈرنگ 6 مارچ 2014 سے 12 جنوری 2015 تک کی گئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

KHAN Aug 06, 2018 09:57pm
35 ارب معمولی رقم نہیں ہوتی، ایک لاکھ روزانہ کے حساب سے پورے 365 دن خرچ کرنے پر اس 35 ارب کی رقم کو خرچ کرنے کے لیے ایک ہزار سال درکار ہونگے، کوئی بھی شخص معمولی حساب کتاب کرکے معلوم کرسکتا ہے کہ ایک لاکھ روزانہ سے 30 لاکھ ماہانہ بنتے ہیں اور اسی حساب سے 3 کروڑ 65 لاکھ سالانہ۔ یعنی 100 سال میں 3 ارب 65 کروڑ روپے اور ایک ہزار سال میں 35 ارب سے کچھ زیادہ۔ ہمیں پاکستان کی دولت واپس چاہیے۔ اس کے لیے ماہرین پر مشتمل جے آئی ٹی بنائی جائے اور اس دولت کا سراغ لگا کر ملکی خزانے میں جمع کی جائے۔