لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان اخبار کے اسٹاف ممبر ہیں۔

تو تھیوری کچھ یوں ہے کہ ہر حکومت اپنی مدت میں ایک بڑا کارنامہ انجام دیتی ہے۔ ہاں ہر حکومت تمام شعبوں میں زور آزمائی تو ضرور کرتی ہے مگر اسے کامیابی صرف ایک ہی شعبے میں حاصل ہوپاتی ہے۔

اس طرح، پاکستان بھی آہستہ آہستہ تبدیل ہوتا ہے۔ ایک وقت میں ایک حکومت کا کارنامہ۔ لہٰذا پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے ’معیشت کو ٹھیک‘ کرنے سے متعلق پالیسیوں کا پوچھنے کے بجائے، میرے خیال میں یہ پوچھنا چاہیے کہ، ان کے دورِ حکومت کے لیے اکلوتی سنگِ میل کامیابی کیا ہونی چاہیے؟

پہلے تو اس تھیوری کی حمایت میں ثبوت پیش کرنا چاہوں گا۔ مشرف کی حکومت نے کئی محاذوں پر کام کیا مگر انہیں نمایاں کامیابی نجکاری کی مہم میں حاصل ہوئی۔

یقیناً ایسا کرنے کے لیے اس حکومت نے پہلے سے چل رہے کام کو آگے بڑھایا، لیکن بینکوں کی نجکاری اور عام طور پر مالیاتی شعبے کو ریاست سے آزادی دلوانے کے علاوہ ڈھانچے کی سطح پر اور کچھ تو متاثرکن نہیں تھا۔

اب یہ اقدام اچھا تھا یا بُرا؟ اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن اس بات پر بحث نہیں ہوسکتی کہ بینکوں کی شیئر ہولڈنگ بڑی سطح پر نجی شعبے کے ہاتھوں میں آگئی۔ صارف مصنوعات کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اسٹاک مارکیٹ میں مستعدی آئی اور اس میں اس قدر شراکت دیکھنے کو ملی جو اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔

پڑھیے: بجلی بحران کے لیے کے پی حکومت کا منفرد منصوبہ

حکومت برآمدکاروں کے دائرہ کار کو وسیع کرنے میں ناکام رہی اور بجلی کی پیداواری کے لیے درآمد شدہ فرنس آئل پر انحصار کو ختم کرنے میں بھی ناکام رہی۔ حکومت توانائی کے شعبے میں معنی خیز انداز میں بہتری لانے میں ناکام رہی اور محصولات کے دائرہ کار کو بھی وسعت نہ دے سکی۔

جب پیپلزپارٹی کی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو وہ بھی ایک ہی شعبے میں کامیابی حاصل کرپائی۔ اس نے این ایف سی ایوارڈ اور 18ویں ترمیم کے ذریعے وفاقیت کے ڈھانچے میں از سرِ نو تبدیلی کی۔ اس کے علاوہ یہ حکومت ہر شعبے میں ناکام رہی۔

بعدازاں مسلم لیگ (ن) کی حکومت بھی ایک ہی سنگ میل عبور کرسکی، کیونکہ اس حکومت نے توانائی کے شعبے میں درآمد شدہ فرنس آئل کے بڑھتے ہوئے انحصار کو ختم کردیا، حالانکہ اس مقصد کے لیے بھی اس نے بڑی حد تک درآمد شدہ ایل این جی کو فرنس آئل کے متبادل کے طور پر استعمال کیا۔ اس کے علاوہ یہ حکومت بھی دیگر تمام شعبوں میں ناکام رہی۔

پیداوار کے انجنز کو تیز چلانا اس وقت تک گنتی میں نہیں آسکتا جب تک اس کے ساتھ کسی قسم کی اسٹرکچرل تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات لانے میں، محصول کے دائرے کو وسعت دینے میں، سرکاری اداروں کے خساروں پر قابو پانے میں ناکامی یا پھر نجکاری کے سلسلے کو آگے بڑھانے میں ناکامی کے ساتھ مسلم لیگ (ن) حکومت اپنے پیچھے جو واحد اسٹرکچرل تبدیلی چھوڑ گئی ہے اور جو ہمارے ساتھ آنے والے کئی برسوں تک ہوگی وہ ہے یل این جی پر ہماری معیشت کا انحصار۔ سی پیک کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سے ’قسمت بدلنے‘ جیسے نتیجے کی توقع کرنے سے پہلے ہمیں انتظار کرنا ہوگا اور دیکھنا ہوگا کہ یہ حقیقی طور پر کس قدر ’قسمت تبدیل‘ کرسکتا ہے۔

تو پھر میں کیا چاہوں گا کہ پی ٹی آئی کا کارنامہ کیا ہو؟ میرے نزدیک، زیادہ کچھ نہیں بس پاکستان میں ری نیو ایبل توانائی کا ایسا انقلاب برپا کردیں جو پوری دنیا کے لیے مثالی ہو۔ بس اتنا کردیں کہ حکومت کی مدت کے اختتام تک پاکستان کے ہر گھر کی چھت پر سولر پینل اور نصف سے زیادہ دن کے وقت کی بجلی کی طلب ونڈ یا سولر جیسے ری نیو ایبل ذرائع سے حاصل کرنا ممکن ہوسکے۔

ہوسکتا ہے کہ آپ کو یہ تجویز معمولی سی محسوس ہو، مگر ایسا ہے نہیں۔ پہلے اس بات پر غور کریں کہ چند دن پہلے بلوم برگ میں غیر معروف ’سب زیرو پاور پرائسنگ‘ یا ’منفی پاور پرائس‘ کے بارے میں خبر شایع ہوئی۔ مذکورہ اصطلاحوں سے مراد گرڈ میں بجلی طلب سے زیادہ ہونا ہے۔ لہٰذا جن ممالک میں گرڈ بجلی کی قیمت سپلائے اور طلب کے مطابق کم اور زیادہ ہوتی رہتی ہیں انہوں نے پایا کہ ایسے بھی مواقع آتے ہیں کہ جب گرڈ درحقیقت بجلی فراہمی کے لیے بھی آپ کو پیسے ادا کرتا ہے۔ ہے نا انوکھی بات؟

پڑھیے: 400 سال تک چلنے والی بیٹری حادثاتی طور پر تیار

جب منفی قیمت پیدا ہوجاتی ہے تو پاور پلانٹس کو بند کرنے یا کم بجلی پیدا کرنے کو کہا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں، زیادہ سے زیادہ ممالک پہلے کے مقابلے میں طویل طویل گھنٹوں تک منفی قیمت کی صورتحال کو پہنچیں اور یہ سب ری نیو ایبل توانائی کو بڑی سطح پر ملنے والی وسعت کی وجہ سے ہوا ہے۔ مضمون کے مطابق 2018ء میں چند ممالک کے اندر 50 گھنٹوں جبکہ دیگر ملکوں میں 100 گھنٹوں تک منفی قیمت کا رجحان دیکھنے کو ملا۔ ان جگہوں پر کھلی دھوپ یا ہواؤں سے بھرپور دن بڑے پاور جنریٹرز کے لیے بدترین حد تک مشکل پیدا کردیتے ہیں۔

تو پھر میں کیا چاہوں گا کہ پی ٹی آئی کا کارنامہ کیا ہو؟ میرے نزدیک، زیادہ کچھ نہیں بس پاکستان میں ری نیو ایبل توانائی کا ایسا انقلاب برپا کردیں جو پوری دنیا کے لیے مثالی ہو۔

مضمون اس بات پر ختم ہوتا ہے کہ، ’اگریگیٹڈ مائیکرو پاور ہولڈنگز پی ایل سی نامی توانائی فراہم کرنے والی کمپنی کے چیئرمین نیل اکرٹ کہتے ہیں کہ بل گیٹس زمین پر امیر ترین آدمی مین فریم کے خاتمے کے ساتھ بنا۔ ہم بھی توانائی کے مین فریم کا خاتمہ دیکھ رہے ہیں۔ دنیا کو نئی تکنیکیں سیکھنی ہوں گی کہ کس طرح چھوٹے پیمانے پر ترسیل کی جانے والی توانائی میں سرمایہ کاری کی جائے۔‘

مختصراً یہ کہ دنیا میں موجود پاور مارکیٹیں اپنے اندر تیزی سے تبدیلی لا رہی ہیں اور یہ مارکیٹس مختلف زبردست طریقوں سے معیشتوں میں بھی تبدیلی پیدا کرسکتی ہیں۔ یہ کوئلے کی طرف جانے کا نہیں بلکہ مراعات کے ذریعے چھتوں پر سولر اور چھوٹے ونڈ منصوبے کو فروغ دینے کا وقت ہے۔ تو پھر یہ مقصد کیسے حاصل ہوگا؟

پاکستان میں ری نیو ایبل انقلاب میں سب سے بڑی رکاوٹ خود توانائی بیوروکریسی ہے، بالخصوص ترسیلی کمپنیاں جنہیں نیٹ میٹرنگ کی سہولیات فراہم کرنی پڑیں گی جو کہ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔ اس کے بعد سب سے بڑی رکاوٹ بجلی پیدا کرنے والی بڑی نجی کمپنیاں ہیں جو ’لو اور ادا کرو‘ جیسی کئی شرائط والے بجلی فروخت کے معاہدوں کے ذریعے حکومت سے جڑی ہیں۔ اب مزید کسی کو ’لو اور ادا کرو‘ والے معاہدوں کی پیش کش نہیں کی جانی چاہیے اور نہ ہی اب مزید یقین دہانیاں دینی چاہئیں۔

اس کے بجائے توانائی کے شعبے کی اصلاحات میں ری نیو ایبل توانائی کے ذرائع کے ذریعے مائیکرو جنریشن (چھوٹی سطح پر بجلی کی پیداوار) کو فروغ دینے کے لیے مراعات کی فراہمی پر توجہ دینی چاہیے۔ مراعات گھر یا فیکٹری میں قابلِ استعمال سولر پینل اور پن چکیوں کی درآمدات پر دی جاسکتی ہیں۔

پاکستان میں ری نیو ایبل انقلاب میں سب سے بڑی رکاوٹ خود توانائی بیوروکریسی ہے، بالخصوص ترسیلی کمپنیاں جنہیں نیٹ میٹرنگ کی سہولیات فراہم کرنی پڑیں گی جو کہ اس انقلاب کو برپا کرنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیوں میں ادائیگی اور ترقیوں کو اس حساب سے منسلک کیا جاسکتا ہے کہ وہ این ٹی ڈی سی سے بجلی خریدنے کے بجائے نیٹ میٹرنگ کے ذریعے کتنی بجلی حاصل کر رہی ہیں۔ گھروں اور کاروبار کرنے والوں کو محصولات یا ان کے بلز کے ذریعے سولر اور ونڈ ٹیکنالوجیز میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے مراعات کی پیش کش بھی کی جاسکتی ہے۔ پاور پرائسنگ کو ریگولیٹر کے ذریعے مرتب کروانے کے بجائے مارکیٹ اصولوں کے مطابق تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان میں اس مہم کو فروغ دینے کے لیے آئیڈیاز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ چونکہ پی ٹی آئی خود کو مقبول ترین پارٹی تصور کرتی ہے اس لیے یہی وہ بہتر موقع ہے کہ اس پارٹی کی حکومت ملک میں تمام طاقتور ذاتی مفادات کے حامل عناصر کو دور کرے جو اس انقلاب کو روکے ہوئے ہیں۔

اس کام کے لیے صرف 5 سالوں کی اجتماعی کوشش درکار ہوگی، لیکن اگر حکومت کی مدت پوری ہونے پر وہ ہمیں منفی پاور پرائیسز کے دن دکھا دیتے ہیں تو پھر وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہم نے اپنی مدت کا کام پورا کردیا اور اب چلتے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔

یہ مضمون 9 اگست 2018ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

امین خان Aug 11, 2018 12:00pm
بہترین تجاویز یز ہیں میں اس سے سو فیصد متفق ہوں کیونکہ باقی دنیا میں اس ٹیکنالوجی کو بہتر طریقے سے کام میں لایا جا رہا ہے