سورج کی تحقیق کے لیے ناسا کی خلائی گاڑی تاخیر سے روانہ

اپ ڈیٹ 12 اگست 2018
خلائی گاڑی کو 11 اگست کو بھیجا جانا تھا—فوٹو: ناسا
خلائی گاڑی کو 11 اگست کو بھیجا جانا تھا—فوٹو: ناسا

یہ انسانی فطرت ہے کہ جس چیز کے بارے میں اسے تجسس ہوتا ہے وہ اس چیز کا قریبی معائنہ کرنے کی جستجو رکھتا ہے، جیسے 17 ویں صدی میں آئزک نیوٹن کے سائنسی قوانین کی وجہ سے ہمیں آج یہ بات معلوم ہے کہ اگر کسی بھی چیز کو ایک مخصوص رفتار سے خلاء میں بھیجا جائے تو وہ زمین کے گرد چکر لگاتی ہے۔

اس نظریے نے سائنسدانوں کے دماغ میں ہلچل مچا دی تھی جس کے پیش نظر 20 ویں صدی میں روس نے سب سے پہلا انسان زمین کے گرد بھیجا اور پھر امریکا نے خلاباز چاند پر بھیجے۔

سیارہ مریخ پر بھی انسانوں کو بھیجنے کی باتیں تو ہور ہی ہیں لیکن رواں مہینے کے آغاز سے ہی یہ خبر سب کی توجہ کا مرکز بنی کہ انسان نے 'سورج' پر اپنی کمان تان لی۔

اور اب دنیا کے ان تمام افراد کا انتظار ختم ہوا اور امریکی خلائی ادارے ناسا کی جانب سے "پارکر سولر پروب" نامی خلائی تحقیقی گاڑی سورج کی جانب بھیج دی گئی ہے۔

اس خلائی مشن کو ناسا کی جانب سے 11 اگست کو بھیجا جانا تھا، تاہم تکنیکی خرابیوں کی وجہ سے اسے آج تاخیر سے بھیجا گیا۔

ناسا کے مطابق خلائی راکٹ پارکر سولرپروب سورج کی تحقیق کے لیے خلا میں بھیج دیا گیا ہے اور اسے فلوریڈا کے کینیڈی اسپیس سینٹر سے بھیجا گیا۔

ناسا حکام نے بتایا کہ سورج کی تحقیق کے لیے بنائے گئے راکٹ پر 1.5 ارب ڈالر لاگت آئی، جس کی رفتار سورج کے قریب 4 لاکھ 30 ہزار میل فی گھنٹہ ہوگی۔

خلائی گاڑی کو بھیجے جانے سے کچھ گھنٹے قبل خرابی کی نشاندہی ہوئی تھی—فوٹو: ناسا
خلائی گاڑی کو بھیجے جانے سے کچھ گھنٹے قبل خرابی کی نشاندہی ہوئی تھی—فوٹو: ناسا

اس مشن کو امریکی ریاست فلوریڈا کے کیپ کیناورل ایئرفورس اسٹیشن بھیجا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: سورج کی تحقیق کیلئے ناسا کی خلائی گاڑی اڑان بھرنے سے قبل خرابی کا شکار

سائنسدان تقریبا 2 دہایوں سے سورج کا زمین سے بھی معائنہ کررہے ہیں جبکہ اسی مقصد کے لیے زمین کے گرد بھی سیٹلائٹس بھیجی گئی ہیں لیکن اب سورج کو ذرا اور قریب سے دیکھنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

پارکر سولر پروب کا نام سائنسدان "اوگینی پارکر" کے نام پر رکھا گیا ہے، جنہوں نے سورج کے مقناطیسی میدان کے بارے میں اور سورج کی سطح سے پیدا ہونے والے چارجز کی ہوائیں، جنہیں شمسی ہوائیں بھی کہا جاتا ہے، کے بارے میں بہت سے نظریات پیش کیے جو تحقیق سے درست ثابت ہوئے ہیں۔

یہ پہلی دفعہ ہے کہ کسی خلائی مشن کا نام حیات سائنسدان کے نام پر رکھا گیا ہو اس وقت پارکر کی عمر 91 برس ہے۔

پارکر سولر پروب کو سورج کے قریب بھیجنے کا مقصد شمسی ہواؤں کی مزید تحقیق اور سورج کی مقناطیسی صلاحیت کو بغور سمجھنا ہے۔

پارکر سولر پروب مشن 6 سال اور 321 دنوں پر محیط ہے اور اس خلائی گاڑی کو خلاء میں بھیجنے کے لیے ڈیلٹا 4 ہیوی راکٹ استعمال کیا گیا، اس قدر طاقتور راکٹ سے اسے لانچ کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس خلائی گاڑی کی رفتار تیز ہو اور یہ جلد سے جلد سورج کہ گرد چکر لگائے۔

یہ خلائی گاڑی سورج کے گرد لمبوترے مدار میں چکر لگائے گی اور یہ اس لیے رکھا گیا تاکہ شروع میں خلائی گاڑی کم وقت کے لیے سورج کے انتہائی قریب جائے گی جس سے اس میں موجود آلات کو نقصان کم ہوگا، مگر آہستہ آہستہ یہ خلائی گاڑی اپنا مدار چھوٹا کرے گی جس کے بعد اس خلائی گاڑی کو کسی ستارے کے انتہائی قریب بھیجے جانے والی انسانی مشین کا اعزاز حاصل ہو جائے گا۔

مزید پڑھیں: ناسا کا 'سورج کو چھونے' کا مشن

ان 7 سالوں میں یہ خلائی گاڑی زمین کے پاس سے تقریبا 3 سے 4 مرتبہ گزرے گی، اس کے علاوہ یہ خلائی گاڑی نظام شمسی کے دوسرے سیارے 'زہرہ' کے پاس سے 7 مرتبہ گزرے گی، جب یہ خلائی گاڑی سورج سے قریب ترین فاصلے پر ہوگی تو اس کا سورج سے فاصلہ 60 لاکھ کلو میٹر ہوگا! اس قدر کم فاصلے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے نظام شمسی میں سورج سے قریب ترین سیارے (عطارد) کا فاصلہ بھی 450 لاکھ کلو میٹر ہے جبکہ زمین کا سورج سے فاصلہ 15 کروڑ کلو میٹر ہے۔

عام عوام میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ یہ خلائی گاڑی سورج کی جانب بھیجنا صرف اور صرف ڈرامہ ہے لیکن ایسا ہرگز نہیں۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ خلائی گاڑی سورج کی شدید تابکار ہواؤں میں جل کر خاک ہوجائے گی لیکن ناسا کہ انجنیئروں نے اس خلائی گاڑی کا نقشہ اور اس میں استعمال شدہ چیزیں کچھ اس طرح سے بنائی ہیں کہ یہی خلائی گاڑی تقریبا 1500 ڈگری سینٹی گریڈ تک کا درجہ حرارت برداشت کر سکتی ہے۔

اس کے علاوہ اس خلائی گاڑی میں کولنگ سسٹم بھی نصب کیا گیا ہے جو اس کے آلات کو زمینی درجہ حرارت تک رکھیں گا، اس قدر زیادہ درجہ حرارت آج تک کسی خلائی گاڑی نے برداشت نہیں کیا جتنا یہ خلائی پروب کرے گی، مگر اس خلائی گاڑی میں ایسی کیا بات ہے جو اسے باقیوں سے منفرد بناتی ہے؟

رپورٹس کے مطابق اس گاڑی کی منفرد چیز اس کے سامنے لگی 11 سینٹی میٹر موٹی کاربن کی شیلڈ ہے جس کے پیچھے چھپ کر اس خلائی گاڑی کے تمام آلات محفوظ رہنے کے ساتھ ساتھ زمین کی طرف ڈیٹا بھیجتے رہیں گے۔

اس شیلڈ کی سامنے کی سطح چمکدار ہے جو کہ سورج سے آنے والی گرمی کو آئینے کی طرح منعکس کر دے گی جس سے خلائی گاڑی گرمائش سے کسی حد تک بچی رہے گی، اس کے علاوہ اس گاڑی پر سولر پینل بھی نصب ہیں جن سے پیدا ہونے والی بجلی اس پر موجود آلات کو چلائیں گے۔

اکثر لوگ اس پر بھی سوال کرتے ہیں کہ خلائی گاڑی کو ایک ہی چکر میں سورج کے قریب بھیجبے کی بجائے سائنسدان اس خلائی گاڑی کو آہستہ آہستہ سورج کے قریب کیوں بھیج رہے ہیں؟ تو اس کا جواب انتہائی عام فہم ہے کہ اگر ہماری زمین جو کہ اس وقت سورج کے گرد تقریبا 29 ہزار کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گردش کر رہی ہے کی یہ گردشی رفتار کم ہو جائے تو اس کا مدار چھوٹا ہونے لگے گا اور ایک وقت آئے گا کہ یہ سورج میں جاگرے گی۔

اس لیے اگر پارکر سولر پروب کو سورج سے 60 لاکھ کلو میٹر کے فاصلے پر گردش کرنے کے لیے تقریبا 200,000 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار تک پہنچنا ہوگا جو کہ دنیا کا کوئی بھی راکٹ پیدا نہیں کر سکتا، لہذا اس خلائی گاڑی کو "گریویٹیشنل اسسٹ" یا کششی مدد لینا تھی۔

گاڑی 2025 تک اپنا مشن مکمل کرے گی—فوٹو: ناسا
گاڑی 2025 تک اپنا مشن مکمل کرے گی—فوٹو: ناسا

گریویٹیشنل اسسٹ ایک ایسا عمل ہے جس میں سیاروں کی کشش ثقل کی مدد سے خلائی گاڑیاں اپنی رفتار بڑھاتی ہیں، خلائی گاڑیوں کی رفتار تیز کرنے کے لیے اس عمل کا استعمال بہت زیادہ کیا جاتا ہے۔

ناسا کی طرف سے بھیجی گئی 2 وایجر خلائی گاڑیاں، نیو ہورائیزن کی خلائی گاڑی اور دوسری خلائی گاڑیوں نے بھی اسی عمل سے اپنی رفتار بڑھائی ہے اور یہ تینوں خلائی گاڑیاں آج نظام شمسی سے باہر جا چکی ہیں۔

ہم جانتے ہیں کہ اگر کسی چیز کو اونچائی سے زمین پر پھینکا جائے تو وہ جیسے جیسے نیچے آتی ہے اس کی رفتار کشش ثقل کی وجہ سے بڑھنے لگتی ہے اور در حقیقت خلاء میں زمین کے گرد چکر لگاتی سیٹیلائٹس بھی زمین کی طرف گر رہی ہیں لیکن وہ زمین کی طرف سیدھ میں نہیں گر رہی بلکہ ایک زاویے پر موجود ہیں جس وجہ سے جب وہ اپنی منزل تک پہنچتی ہیں تو زمین اپنی گولائی کی وجہ سے نیچے موجود نہیں رہتی اور اسی طرح سیٹلائٹ زمین کے گرد چکر لگاتی رہتی ہیں۔

اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے پارکر سولر پروب خلاء میں پہنچنے کے بعد پہلے زمین اور پھر سیارہ زہرہ کی کششی مدد سے اپنی رفتار بڑھائے گی اور آہستہ آہستہ سورج کے گرد مدار چھوٹا کرتی جائے گی۔

سورج کے قریب پہنچنے کے بعد اس کے آلات ڈیٹا لینا شروع کریں گے اور زمین تک ریڈیائی سگنلز کے ذریعے ڈیٹا پہنچایا جائے گا، اس خلائی گاڑی کا زمین سے اتنا فاصلہ ہوگا کہ اس کے سگنلز کو زمین تک پہنچنے کے لئے تقریبا 8 منٹ کا وقت درکار ہوگا۔

یہ خلائی گاڑی سورج کے گرد کل 24 چکر لگائے گی اور اس کے بعد 25 جون 2025 کو اس مشن کا اختتام ہوگا، ناسا کی روایت رہی ہے کہ خلائی گاڑی کو اسی فلکی جسم میں ضم کردیا جاتا ہے جس کی تحقیق کے لے اسے بھیجا جاتا ہے۔

جیسے کسینی خلائی گاڑی کو سیارے زحل کی تحقیق کے لیے بھیجا گیا تھا اور بعد میں اسی سیارے میں گرا کر اسے تباہ کر دیا گیا، اسی طرح مشن کے اختتام پر پارکر سولر پروب کو بھی سورج میں گرا کر ختم کردیا جائے گا۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اس خلائی گاڑی میں وہ چپ بھی نصب ہے جس میں دنیا کے لوگوں کے نام شامل ہیں اور خلائی گاڑی کے ساتھ یہ چپ بھی سورج میں ضم ہوجائے گی۔


سید منیب علی پنجاب کالج لاہور کے طالب علم، "لاہور آسٹرونومیکل سوسائٹی (LAST)" اور "دی پلانیٹری سوسائٹی (TPS) کے رکن اور علم فلکیات کے شوقین ہیں۔ 2013 سے آسمان کا مشاہدہ کر رہے ہیں، علم فلکیات کے موضوعات پر لکھنا ان کا من پسند مشغلہ ہے، ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

محمد عرفان Aug 12, 2018 05:37pm
Can you show us a map on which trajectory this Mission will travel towards sun..