گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) دیدار ملک نے 12 رکنی جرگے سے اسکولوں پر حملہ کرنے والے مبینہ 27 ملزمان کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا۔

چلاس میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جرگے کے ساتھ اجلاس ہوا جہاں مقامی سیاسی رہنما ملک مسکین، گلگت بلتستان کے وزیر ایکسائز اور ٹیکسیشن حیدر خان، وزیرجنگلات عمران وکیل اور دیگر معززین شامل تھے۔

ڈی سی دیامر دیدار ملک نے اجلاس کے دوران جرگےسے مطالبہ کیا کہ مشتبہ افراد کو 13 اگست کو شام 4 بجے آپریشن شروع ہونے سے والے قبل ہمارے حوالہ کیا جائے جس کے بعد داریل اور تانگیر دونوں تحصیلوں میں آپریشن کیا جائے گا۔

جرگے نے ڈی سی اور سیکیورٹی عہدیداروں کو یقین دلایا کہ وہ مشتبہ افراد کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں کو بھی حوالہ کرنے کی کوشش کریں گے اور حکام سے ڈیڈلائن سے قبل علاقے میں کارروائی نہ کرنے کی بھی درخواست کی۔

یاد رہے کہ 2 اگست کی رات کو ضلع دیامر میں نامعلوم ملزمان کی جانب سے ایک درجن سے زائد اسکولوں کو آگ لگادی گئی تھی جن میں سے اکثر اسکول لڑکیوں کے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے نذرآتش اسکول کا بحالی کے بعد افتتاح کردیا

ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حملہ آوروں نے مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ عمارت کو خالی کرنے کے بعد آگ لگائی تھی۔

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ تفتیش کے دوران ‘اہم شواہد سامنے آگئے ہیں’ جس کے مطابق چند بیرونی عناصر اور مقامی سہولت کار ان واقعات میں شامل ہیں تاہم کسی تنظیم کی جانب سے تاحال اس کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

واقعے کے فوری بعد علاقے میں بڑے پیمانے پر آپریشن شروع کیا گیا تھا اور ملزمان کی گرفتاری کے حوالے سے سیکیورٹی فورسز، قانون نافذ کرنے والے اداروں، مقامی انتظامیہ اور مقامی افراد نے اجلاس میں فیصلے کیے تھے۔

تانگیر میں آپریشن کے دوران ایک گھر میں موجود ملزمان سے مقابلے ہوا تھا اور فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار شہید اور دیگر زخمی ہوئے تھے۔

بعد ازاں 5 اگست کو شہید پولیس اہلکار کے جنازے میں شرکت کے لیے جانے والے سیشن جج کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی تھی تاہم جج محفوظ رہے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ اسکولوں میں آگ لگانے میں مبینہ طور پر ملوث ملزم شفیق کو تانگیر میں 5 اگست کو ہی مارا گیا تھا۔

ڈان کو ذرائع نے بتایا کہ ملزم کو مبینہ طور پر شہید پولیس اہلکار کے رشتہ داروں نے مارا تھا جس نے تانگیر میں ایک گھرمیں کارروائی کے دوران حملہ کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں